وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ ۚ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم مَّا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ ۖ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِن نَّصِيرٍ
اور وہ اس میں چلائیں گے، اے ہمارے رب! ہمیں نکال لے، ہم نیک عمل کریں گے، اس کے خلاف جو ہم کیا کرتے تھے۔ اور کیا ہم نے تمھیں اتنی عمر نہیں دی کہ اس میں جو نصیحت حاصل کرنا چاہتا حاصل کرلیتا اور تمھارے پاس خاص ڈرانے والا بھی آیا۔ پس چکھو کہ ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔
[ ٤١] جہنمیوں کی فریاد کے مختلف جوابات :۔ اہل دوزخ کی اس فریاد کا ذکر بھی قرآن کریم میں متعدد مقامات پر مذکور ہے اور اس کے مختلف جواب بھی۔ مثلاً ایک مقام پر یہ جواب دیا گیا کہ اگر ہم انہیں دوبارہ دنیا میں بھیج بھی دیں تو وہ پھر دل کی دلفریبیوں پر مفتون ہوجائیں گے اور پھر ویسے ہی کام کریں گے جیسے پہلے کرکے آئے ہیں۔ دوسرے مقام پر یہ جواب دیا گیا کہ ان کی یہ آرزو بالکل لغو ہوگی۔ کیونکہ ایمان لانے سے مراد غیب پر ایمان لانا ہے اور اعمال صالحہ کا نمبر اس کے بعد آتا ہے اور یہاں روز آخرت میں جب سب کچھ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تو پھر یہ تو ایمان بالشہادت ہوگیا۔ اور شہادت یا دیکھی ہوئی چیز پر تو ہر کوئی یقین کرلیتا ہے۔ پھر ان کی آزمائش کیا رہی جبکہ ہر انسان کو قوت ارادہ و اختیار اور عقل و فہم اس لئے دیا گیا تھا کہ اس کی آزمائش ہوگی اور تیسرا جواب یہاں دیا گیا ہے کہ کیا تمہیں اتنی عمر دنیا میں نہیں دی گئی تھی کہ اگر غور و فکر کرکے تم ایمان لانا چاہتے تو اس میں کوئی بات مانع نہ تھی اس کے علاوہ تمہارے پاس نبی بھی آئے تھے جنہوں نے تمہیں تمہارے اس برے انجام سے پوری طرح آگاہ کردیا تھا۔ اس بات کا ان مجرموں کے پاس کوئی جواب نہ ہوگا۔ ''اتنی عمر'' سے مراد سن شعور ہے۔ بلوغت کے بعد انسان میں عقل و شعور آجاتا ہے وہ اپنا نفع و نقصان سوچنے کے قابل ہوجاتا ہے اسی لئے اس عمر میں وہ شرعاً مکلف سمجھا جاتا ہے۔ اس عمر سے پہلے اگر کوئی شخص مر جائے تو اس کا عذر قابل قبول ہوسکتا ہے۔ اور جس شخص کو چالیس یا پچاس یا ساٹھ برس عمر مل جائے تو اس پر تو مکمل طور پر حجت تمام ہوجاتی ہے۔