وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقًا يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُم بِالْكِتَابِ لِتَحْسَبُوهُ مِنَ الْكِتَابِ وَمَا هُوَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
اور بے شک ان میں سے یقیناً کچھ لوگ ایسے ہیں جو کتاب (پڑھنے) کے ساتھ اپنی زبانیں مروڑتے ہیں، تاکہ تم اسے کتاب میں سے سمجھو، حالانکہ وہ کتاب میں سے نہیں اور کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے، حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں اور اللہ پر جھوٹ کہتے ہیں، حالانکہ وہ جانتے ہیں۔
[٦٨]علماء کا لب ولہجہ سے عوام کوفریب دینا اورخطبیوں کی چالبازیاں:۔ اس آیت میں یہود کی ایک اور چالبازی مذکور ہے۔ خطیبوں اور واعظوں کی عموماً یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ کتاب اللہ کی آیات کو تو خوش آوازی اور لے کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اس کے معانی اور تشریح عام گفتگو کے لہجہ میں کرتے ہیں۔ اب اگر وہ معانی اور تشریح کے الفاظ کی ادائیگی بھی اسی لب و لہجہ میں کریں جس میں وہ کتاب اللہ کی کرتے ہیں تو سننے والے یہ سمجھتے ہیں کہ ان لفظوں کے معانی بھی کتاب اللہ ہی کا حصہ ہیں۔ لوگوں کو فریب دینے اور اپنے خیالات کو اللہ کی طرف منسوب کردینے کی یہ ایک بدترین صورت ہے اور اس طرح وہ ہر جھوٹی سچی بات اللہ کے ذمہ لگا کر اس سے مختلف قسم کے مفادات حاصل کرتے ہیں۔ یہود کی جس عادت بد کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے۔ دوسرے اہل کتاب حتیٰ کہ مسلمان بھی اس سے محفوظ نہیں۔ مسلمانوں میں بھی ایک فرقہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشریت کا منکر ہے وہ جب یہ آیت ﴿قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ ﴾پڑھتے ہیں تو ﴿ انما﴾ کے لفظ میں معمولی سی تحریف کرکے اس ایک لفظ کے دو الفاظ بنا کر ( ان ما) پڑھتے ہیں۔ پھر اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں۔ ’’اے نبی! کہہ دو کہ تحقیق نہیں ہوں میں بشر تم جیسا‘‘ اس طرح جو آیت ان کے عقیدہ کو باطل قرار دیتی تھی۔ اسے اپنے عقیدہ کے مطابق بنا لیتے ہیں۔ اس طرح وہ صرف تحریف لفظی کے ہی مرتکب نہیں ہوتے بلکہ اپنے پیروکاروں کو اس مزعومہ عقیدہ پر مضبوط رکھنے اور باہمی تفرقہ بازی کی خلیج کو مزید وسیع کرنے کا سبب بنتے ہیں اور یہ سب کچھ زبان کی لے اور لہجہ میں موڑ توڑ کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔