أَفَمَن زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَآهُ حَسَنًا ۖ فَإِنَّ اللَّهَ يُضِلُّ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۖ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَصْنَعُونَ
تو کیا وہ شخص جس کے لیے اس کا برا عمل مزین کردیا گیا تو اس نے اسے اچھا سمجھا (اس شخص کی طرح ہے جو ایسا نہیں؟) پس بے شک اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے، سو تیری جان ان پر حسرتوں کی وجہ سے نہ جاتی رہے۔ بے شک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں۔
[ ١٢] کافروں کے ایمان نہ لانے پر آپ کا پریشان رہنا :۔ اس آیت میں ایک جملہ مخدوف ہے جسے قاری کے فہم و بصیرت پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اور یہ فصاحت و بلاغت کی دلیل ہوتی ہے۔ اور قرآن میں ایسے محذوفات بکثرت پائے جاتے ہیں۔ یہاں سوال یہ کیا گیا ہے کہ بھلا ایسا شخص جس کے ذہن میں اتنا بگاڑ پیدا ہوچکا ہو کہ اس کے نزدیک نیکی اور بدی کی تمیز ہی ختم ہوجائے اور اسے اپنی بداعمالیاں ہی اچھے اعمال نظر آنے لگیں، اس سوالیہ جملے کا اگلا حصہ چھوڑ دیا گیا ہے۔ جو ایک تو یہ ہوسکتا ہے کہ اس کی گمراہی کا کوئی ٹھکانا ہے؟ جیسا کہ ترجمہ میں (بریکٹوں میں لکھ دیا گیا ہے) اور دوسرا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کیا ایسے بگڑے ہوئے ذہن والا آدمی اس آدمی کی طرح ہوسکتا ہے جس کا ذہن بالکل درست ہو جو برے کام کو برا ہی سمجھتا ہو اور اچھا صرف اسے سمجھتا ہو جو فی الواقع اچھا ہو؟ اور اس کا واضح جواب یہ ہے کہ یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ مقصود یہ ہے کہ جس شخص کا ذہن اس قدر بگڑ چکا ہو کہ اس میں بدی کو بدی سمجھنے کی اہلیت ہی باقی نہ رہ گئی ہو ایسے شخص کو اللہ کبھی ہدایت کی راہ نہیں دکھاتا۔ اللہ تو صرف اسے ہدایت کی راہ دکھاتا ہے جو کم از کم بدی کو بدی سمجھتا تو ہو۔ اور ان مشرکین مکہ کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ وہ مسلمانوں پر جس قدر بھی ظلم ڈھائیں۔ وہ اپنے اس ظلم و تشدد کو خوبی اور اچھا کام ہی سمجھتے ہیں۔ پھر انہیں ہدایت کیسے مل سکتی ہے لہٰذا ایسے ذہنی بگاڑ میں مبتلا مریضوں کی ہدایت کی فکر میں اپنے آپ کو ہلکان نہ کریں۔ ایسے لوگوں پر افسوس کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے وہ خود ان سے نمٹ لے گا اور مسلمانوں کے لئے ان ظالموں کے ظلم سے نجات کی راہ خود پیدا کردے گا۔