سورة الأحزاب - آیت 71

يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

وہ تمھارے لیے تمھارے اعمال درست کر دے گا اور تمھارے لیے تمھارے گناہ بخش دے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے تو یقیناً اس نے کامیابی حاصل کرلی، بہت بڑی کامیابی۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٠٩] راست بازی کے فوائد :۔ ان دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے دین و دنیا میں کامیاب زندگی کا ایک زریں اصول بیان فرما دیا جو کسی انسان کی پوری زندگی کو محیط ہے اور وہ اصول یہ ہے کہ بات سیدھی اور صاف کہا کرو جس میں جھوٹ نہ ہو۔ کوئی ایچ پیچ اور ہیرا پھیرا بھی نہ ہو۔ کسی کی جانبداری بھی نہ ہو۔ بات جتنی ہی ہو اتنی ہی کرو اس پر حاشیے نہ چڑھاؤ۔ اور اپنی طرف سے کمی بیشی بھی نہ کرو۔ اسی کا دوسرا نام راست بازی ہے۔ راست بازی سے بعض دفعہ اپنی ذات کو، اپنے اقرباء کو اور اپنے دوست احباب کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہ سب کچھ برداشت کرو لیکن راست بازی کا دامن نہ چھوڑو۔ اس لئے کہ اس کے نتائج بڑے مفید اور دوررس ہوتے ہیں۔ اس سے انسان کا وقار قائم ہوتا ہے۔ عزت ہوتی ہے، ساکھ بنتی ہے پھر اس ساکھ سے انسان کو بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ یہ تو دنیوی فوائد ہوئے اور روحانی فوائد یہ ہیں کہ اس سے انسان کے اعمال خود بخود درست ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میں شہادتین کا اقرار کرتا ہوں مگر اسلام لانے کی اپنے آپ میں جرأت نہیں پاتا کیونکہ مجھ میں فلاں عیب بھی ہے اور فلاں عیب بھی اور فلاں بھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا : ’’کیا تم مجھ سے جھوٹ چھوڑنے کا اقرار کرتے ہو؟‘‘ وہ کہنے لگا ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا اسلام منظور ہے۔ چنانچہ جب بھی وہ کوئی قصور کرنے لگتا تو اسے خیال آتا کہ فلاں آدمی یا اللہ کا رسول مجھ سے پوچھے گا یا قیامت کو اللہ پوچھے گا تو اب میں جھوٹ تو بول نہیں سکتا پھر کیا ہوگا۔ اس خیال سے وہ اس عیب سے باز رہتا۔ آہستہ آہستہ اس کے تمام اعمال درست ہوگئے۔ یہ تو صرف جھوٹ چھوڑنے کی بات تھی جبکہ قول سدید جھوٹ ترک کرنے سے بہت اعلیٰ اخلاقی قدر ہے۔ پھر اس سے انسان کے اعمال کیوں درست نہ ہوں گے۔ اور جب اس کے اعمال درست ہوگئے تو سابقہ گناہ اللہ تعالیٰ خود ہی حسب وعدہ معاف فرما دیں گے اور یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہے جبکہ وہ اللہ سے ڈرتا ہو اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مطیع فرمان ہو۔ اور ایسے شخص کی اخروی زندگی بھی بہرحال بہت کامیاب زندگی ہوگی۔