وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا
اور کہیں گے اے ہمارے رب! بے شک ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کا کہنامانا تو انھوں نے ہمیں اصل راہ سے گمراہ کردیا۔
[١٠٦] سادات اور کبراء سے کون لوگ مراد ہی؟ ان دو آیات سے چند باتیں مستفاد ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کی راہ سے مراد اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہے۔ دوسری یہ کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے برگشتہ کرنے والے حضرات دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک دنیوی سردار، حاکم، رئیس، چودھری وغیرہ جن کا عوام پر اثر ہوتا ہے۔ اور وہ یہ چاہتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے بجائے لوگوں سے اپنی اطاعت کروائیں۔ دوسری قسم کے لوگ علماء اور مشائخ یعنی مذہبی پیشوا ہوتے ہیں۔ ان کے گمراہ کرنے کا انداز دنیوی سرداروں سے بالکل جداگانہ ہوتا ہے۔ وہ لوگوں میں شرکیہ رسوم اور بدعات رائج کرتے، غلط فتوے دیتے، اولیاء اللہ کے تصرف کی دھاک بٹھاتے اور اس طرح کئی طرح کے مفادات حاصل کرتے ہیں۔ مقصد دونوں کا حب مال اور جاہ ہوتا ہے۔ تیسری یہ بات کہ مطیع اور مطاع یعنی گمراہ ہونے والے اور گمراہ کرنے والے سب کے سب جہنمی ہوتے ہیں۔ جب وہ جہنم کا عذاب دیکھ لیں گے تو اپنے جرم میں اور اسی طرح عذاب میں تخفیف کی خاطر اطاعت کرنے والے اپنے بڑوں اور پیشواؤں پر یہ الزام لگائیں گے کہ ہمیں گمراہ کرنے والے تو یہ لوگ تھے۔ لہٰذا اے پروردگار! انھیں دوگنا عذاب کر۔ بالفاظ دیگر ان کی التجا یہ ہوگی کہ ہمارے عذاب میں ان کے مقابلہ میں آدھی تخفیف ہونی چاہئے اور ان دونوں فریقوں کے درمیان مکالمہ پہلے قرآن میں کئی مقامات پر گزر چکا ہے۔