يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے آپ پر لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انھیں تکلیف نہ پہنچائی جائے اور اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والاہے۔
[٩٩] اس حکم کے ذریعہ اوباش منافقوں کی چھیڑ چھاڑ کا سدباب کردیا گیا۔ نبی کی بیویوں، بیٹیوں اور سب مسلمان عورتوں کو حکم دیا گیا کہ بڑی چادریں اپنے سر کے اوپر سے نیچے لٹکا لیا کریں۔ اس سے بآسانی معلوم ہوسکے گا کہ یہ لونڈیاں نہیں بلکہ شریف زادیاں ہیں۔ لہٰذا منافق انھیں چھیڑ چھاڑ کی جرأت نہ کرسکیں گے۔ بنات النبی صلی اللہ علیہ وسلم:۔ ضمناً اس سے اس بات کا پتہ لگتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں تین یا تین سے زیادہ تھیں اور حقیقتاً یہ چار تھیں۔ سیدہ زینب، سیدہ رقیہ، سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہن۔ جبکہ شیعہ حضرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک بیٹی (سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا) تو تسلیم کرتے ہیں۔ باقی کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ بڑی چادر اوڑھ کر عورتیں باہر نکلیں :۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ بعض حضرات چہرہ کو پردہ کے حکم سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ﴿ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ ﴾ کا مطلب چادر لٹکا کر گھونگھٹ نکالنا نہیں بلکہ اس سے مراد چادر کو اپنے جسم کے ارد گرد اچھی طرح لپیٹ لینا ہے جسے پنجابی میں ''بکل مارنا'' کہتے ہیں۔ اس توجیہ کی تہ میں جو کچھ ہے وہ سب کو معلوم ہے ہم صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ یہ توجیہ لغت، عقل اور نقل تینوں لحاظ سے غلط ہے۔ وہ یوں کہ : ١۔ لغوی لحاظ سے دنٰی یدنی کا مطلب قریب ہونا، جھکنا اور لٹکنا سب کچھ آتا ہے۔ قرآن میں ہے ﴿وَجَنَا الْجَنَّـتَیْنِ دَانٍ ﴾(۵۴:۵۵) یعنی ان دونوں باغوں کے پھل جھک رہے ہیں یا لٹک رہے ہیں اور اَدْنٰی یَدْنِی یعنی قریب کرنا، جھکانا اور لٹکانا اور ادنی الستر بمعنی پردہ لٹکانا ہے (منجد) اب اگر ادنٰی الیھن من جلابیبھن کے الفاظ ہوتے تو پھر ان معانی کی بھی گنجائش نکل سکتی تھی جو یہ حضرات چاہتے ہیں لیکن قرآن میں ادنیٰ کا صلہ علیٰ سے ہے جو اس کے معنی کو اِرْخَاء یعنی اوپر سے لٹکانے کے معنوں سے مختص کردیتا ہے۔ اور جب لٹکانا معنی ہو تو اس کا مطلب سر سے نیچے کو لٹکانا ہوگا جس میں چہرہ کا پردہ خود بخود آجاتا ہے۔ ہاتھوں اور چہرے کا پردہ :۔ ٢۔ اور عقلی لحاظ سے یہ توجیہ اس لئے غلط ہے کہ عورت کا چہرہ ہی وہ چیز ہے جو مرد کے لئے عورت کے تمام بدن سے زیادہ پرکشش ہوتا ہے۔ اگر اسے ہی حجاب سے مستثنیٰ قرار دیا جائے تو حجاب کے باقی احکام بے سود ہیں۔ فرض کیجئے آپ اپنی شادی سے پہلے اپنی ہونے والی بیوی کی شکل و صورت دیکھنا چاہتے ہیں۔ اب اگر آپ کو اس لڑکی کا چہرہ نہ دکھایا جائے باقی تمام بدن ہاتھ، پاؤں وغیرہ دکھا دیئے جائیں تو کیا آپ مطمئن ہوجائیں گے؟ اس سوال کا جواب یقیناً نفی میں ہے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ آپ کو اس لڑکی کا صرف چہرہ دکھادیا جائے اور باقی بدن نہ دکھایا جائے اس صورت میں آپ پھر بھی بہت حد تک مطمئن نظر آئیں گے۔ پھر جب یہ سب چیزیں روزمرہ کے تجربہ اور مشاہدہ میں آرہی ہیں تو پھر آخر چہرہ کو احکام حجاب سے کیونکر خارج کیا جاسکتا ہے؟ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا۔ ایک شخص آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ اس نے ایک انصاری عورت سے عقد کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا : ’’کیا تم نے اسے دیکھا بھی ہے؟'' وہ کہنے لگا ''نہیں'' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جا اس کو دیکھ لے اس لئے کہ انصار کی آنکھوں میں کچھ عیب ہوتا ہے‘‘ (مسلم۔ کتاب النکاح۔ باب ندب من اراد نکاح امرأۃ الیٰ ان ینظر الیٰ وجھھا وکفیھا قبل خطبتھا) اس حدیث میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرہ دیکھنے کی ہی ہدایت فرمائی۔ آیت کے غلط معنی اور اس کا جواب :۔ ٣۔ نقلی لحاظ سے بھی یہ توجیہ غلط ہے۔ یہ سورۃ احزاب ذیقعد ٥ ھ میں نازل ہوئی اور واقعہ افک شوال ٦ ھ میں پیش آیا۔ اور واقعہ افک بیان کرتے ہوئے خود سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’میں اسی جگہ بیٹھی رہی۔ اتنے میں میری آنکھ لگ گئی۔ ایک شخص صفوان بن معطل سلمی اس مقام پر آئے اور دیکھا کوئی سو رہا ہے۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا کیونکہ حجاب کا حکم اترنے سے پہلے اس نے مجھے دیکھا تھا۔ اس نے مجھے دیکھ کر﴿إنَّا لِلّٰہِ وَإنَّا إلَیْہِ رَاجِعُوْنَ﴾ پڑھا تو میری آنکھ کھل گئی تو میں نے اپنا چہرہ اپنی چادر سے ڈھانپ لیا‘‘ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب حدیث الافک۔۔) اب سوال یہ ہے کہ اگر ﴿یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ ﴾ کا معنی وہ ہو جو یہ حضرات ہمیں سمجھانا چاہتے ہیں تو کیا (معاذ اللہ) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کا معنی غلط سمجھا تھا ؟