إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اس پر صلوٰۃ بھیجو اور سلام بھیجو، خوب سلام بھیجنا۔
[٩٦] اس زمانہ میں کفار اور منافقین آپ پر طرح طرح کی الزام تراشیاں کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ خود اپنے نبی پر رحمتوں کی بارش کر رہا ہے۔ فرشتے بھی اس کے حق میں دعائے رحمت و برکت کرتے ہیں۔ تو پھر ان لوگوں کے بے ہودہ بکواس سے کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ساتھ ہی مومنوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اس نبی پر بکثرت درود یا دعائے رحمت و مغفرت اور سلامتی کی دعا کیا کرو۔ وہ الزام تراشیاں تو وقتی اور عارضی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسا طریقہ بتا دیا کہ تاقیامت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلامتی اور رحمت و مغفرت کی دعائیں مانگی جایا کریں۔ اور ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر بلند رہا کرے۔ اس سلسلہ میں درج ذیل دو احادیث بھی ملاحظہ فرما لیجئے : آپ پر درود و سلام کیوں ضروری ہے؟ ١۔ ابو العالیہ نے کہا کہ اللہ کی صلوٰۃ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں میں آپ کی تعریف کرتا ہے اور فرشتوں کی صلوٰۃ سے دعا مراد ہے۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ یصلون کا معنی یہ ہے کہ برکت کی دعا کرتے ہیں۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ عنوان باب) ٢۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ بن عجرہ کہتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ پر سلام کرنا تو ہم کو معلوم ہوگیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کیسے بھیجیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یوں کہو : (اللھم صل علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد کما صلیت علیٰ ابراہیم انک حمید مجید۔ اللھم بارک علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد کما بارکت علیٰ ابراہیم انک حمید مجید) اور یزید بن ھاد کی روایت میں علی ابراہیم کے بعد دونوں جگہ علیٰ آل ابراہیم کے الفاظ بھی ہیں۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) درود و سلام کی اصل بنیاد یہ ہے کہ ہر مومن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہی ایمان کی نعمت نصیب ہوئی۔ اور ایمان اتنی بڑی نعمت ہے کہ دین و دنیا کی کوئی نعمت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی اور اس نعمت کا احسان مومن کبھی اتار نہیں سکتے۔ تاہم ایمانداروں کو اتنا ضرور کرنا چاہئے کہ وہ اپنے اس محسن اعظم کی محبت سے سرشار ہوں اور اس کے حق میں دعائے رحمت و برکت اور مغفرت کیا کریں۔ اس سے ان کے اپنے بھی درجات بلند ہوں گے اور ہر دفعہ درود پڑھنے کے عوض اللہ ان پر دس گناہ درود یا اپنی رحمتیں نازل فرمائے گا۔ (مسلم۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعد التشہد) سلموا تسلیما کے دو مطلب :۔ سلّموا تسلیما کے بھی دو معنے ہیں۔ ایک تو درج بالا حدیث سے واضح ہے کہ اس کے لئے سلامتی کی دعا کیا کریں۔ اور اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ دل و جان سے اس کے آگے سرتسلیم خم کردیں۔ جیسا کہ سورۃ نساء کی آیت نمبر ٦٥ میں ان الفاظ کے یہی معنی مراد ہیں۔ صلوٰۃ وسلام کے فضائل :۔ درود و سلام پڑھنے کے فضائل میں اب چند مزید احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص ایک بار مجھ پر درود بھیجے گا تو اللہ اس پر دس رحمتیں بھیجے گا۔ اس کے دس گناہ معاف کئے جائیں گے اور دس درجے بلند کئے جائیں گے۔ (حوالہ ایضاً) ٢۔ سیدنا ابی رضی اللہ عنہ بن کعب فرماتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ پر بکثرت درود بھیجتا ہوں۔ میں اپنی دعا کا کتنا حصہ درود کے لئے مقرر کروں؟ فرمایا : جتنا تو چاہے۔ میں نے کہا : ایک چوتھائی؟ فرمایا ’’جتنا تو چاہے اور اگر زیادہ کرے تو تیرے حق میں بہتر ہے‘‘ میں نے کہا : آدھا حصہ؟ فرمایا : ’’جتنا تو چاہے اور اگر زیادہ کرلے تو تیرے حق میں بہتر ہے‘‘ پھر میں نے پوچھا : ’’دو تہائی؟‘‘ فرمایا : ’’جتنا تو چاہے اور اگر زیادہ کرے تو تیرے لئے بہتر ہے‘‘ پھر میں نے کہا : میں اپنی دعا کا سارا وقت آپ پر درود کے لئے مقرر کرلیتا ہوں۔ فرمایا : ’’اب تو اپنے غم سے کفایت کیا جائے گا اور تیرے گناہ تجھ سے دور کردیئے جائیں گے‘‘ (ترمذی۔ بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب الصلوٰۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فصل ثانی) ٣۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جب تک تو اپنے نبی پر درود نہ بھیجے دعا زمین و آسمان کے درمیان موقوف رہتی ہے اور اوپر نہیں چڑھتی۔ (ترمذی۔ بحوالہ مشکوٰۃ۔ باب الصلوٰۃ علی النبی۔ فصل ثانی) ٤۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’وہ شخص بڑا بخیل ہے جس کے پاس میرا ذکر ہوا پھر اس نے مجھ پر درود نہ بھیجا‘‘ (ترمذی۔ بحوالہ مشکوٰۃ ایضاً)