مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا
محمد تمھارے مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں اور لیکن وہ اللہ کا رسول اور تمام نبیوں کا ختم کرنے والا ہے اور اللہ ہمیشہ سے ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
[ ٦٤] معترفین کے اس نکاح کے بارے میں اعتراضات :۔ اس جملے میں دشمنان اسلام کے اس طعن کی تردید ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے بیٹے کی مطلقہ بیوی یعنی اپنی بہو سے نکاح کرلیا ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ زید کے باپ ہیں ہی نہیں اور ایک زید ہی کیا کسی بھی مرد کے باپ نہیں۔ یعنی ان کی کوئی اولاد ایسی نہیں جو جوان ہو اور مرد کہلائے جانے کے قابل ہو۔ واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بیٹے قاسم اور طیب (جنہیں طاہر بھی کہا جاتا ہے) فوت ہوچکے تھے اور ابراہیم ابھی پیدا ہی نہ ہوئے تھے۔ ان کے علاوہ حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ آپ کے نواسے تھے۔ جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بیٹا بھی فرمایا مگر ایک تو وہ حقیقی بیٹے نہ تھے۔ دوسرے وہ بھی کمسن تھے جنہیں مرد نہیں کہا جاسکتا۔ [ ٦٥] ہنگامہ بپا کرنے والوں کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اگر زید کی مطلقہ بیوی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح جائز بھی تھا تو کیا یہ ضروری تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے نکاح کرتے۔ یہ بات ویسے بھی کہی جاسکتی تھی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ انھیں تو وہ کام بہرحال کرنا ہوتا ہے جو اللہ کا حکم ہو اور اللہ کا حکم یہی ہے کہ اس بری رسم کی اصلاح کا آغاز نبی کی ذات سے کیا جائے۔ [ ٦٦] ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی رسول تو کیا کوئی نبی بھی آنے والا نہیں۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس برے دستور کی اصلاح ممکن ہی نہ تھی۔ لہٰذا ضروری تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرتے تاکہ دوسرے مسلمانوں کے لئے یہ راستہ ہموار ہوجائے اور انھیں ایسا کرنے میں کوئی پریشانی لاحق نہ ہو۔ تاہم یہ جملہ ایک ٹھوس حقیقت پر مبنی ہے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے : (١) عامر الشعبی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی بیٹا زندہ نہ رہا تاکہ اس آیت کا مضمون صادق آجائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے باپ نہیں۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) (٢) آپ خاتم النبییّن ہیں :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری اور اگلے پیغمبروں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک گھر بنایا۔ اس کو خوب آراستہ پیراستہ کیا۔ مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ اس میں آتے جاتے اور تعجب کرتے ہیں کہ اس اینٹ کی جگہ کیوں چھوڑ دی۔ وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیّین ہوں‘‘ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب خاتم النبیّین صلی اللہ علیہ وسلم ) (٣) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’بنی اسرائیل پر نبی حکومت کیا کرتے جب ایک نبی فوت ہوجاتا تو اس کی جگہ دوسرا نبی ہوتا۔ مگر میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ البتہ میرے بعد کثرت سے خلفاء پیدا ہوں گے‘‘ (بخاری۔ کتاب الانبیاء۔ باب ما ذکر عن بنی اسرائیل) (مسلم۔ کتاب الامارۃ۔ باب الامر بالوفاء ببیعۃ الخلفاء ) (٤) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک دو گروہ آپس میں نہ لڑیں۔ دونوں میں بڑی جنگ ہوگی اور دونوں کا دعویٰ ایک ہوگا اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تیس کے قریب چھوٹے دجال ظاہر نہ ہوں یعنی ان میں سے ہر ایک یہی کہے گا کہ میں اللہ کا رسول ہوں‘‘ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب علامات النبوت فی الاسلام) (٥) اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب :۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسیلمہ کذاب مدینہ آیا اور کہنے لگا : ’’اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد مجھے اپنا جانشین بنائیں تو میں ان کی تابعداری کرتا ہوں‘‘ اور مسیلمہ کذاب اپنے ساتھ بہت سے لوگوں کو بھی لایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس چلے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت بن قیس (بن شماس۔ خطیب انصار) بھی تھے۔ اس وقت آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیلمہ سے مخاطب ہو کر فرمایا : اگر تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ چھڑی بھی مانگو تو میں نہیں دوں گا۔ (جانشینی تو دور کی بات ہے) اور اللہ نے جو کچھ تیری تقدیر میں لکھ دیا ہے تو اس سے بچ نہیں سکتا۔ اور تو اسلام نہ لائے گا اور اللہ تجھے تباہ کردے گا۔ اور میں تو سمجھتا ہوں کہ تو وہی دشمن ہے جس کا حال مجھے اللہ تعالیٰ (خواب میں) دکھا چکا ہے۔ اور یہ ثابت بن قیس میری طرف سے تمہیں جواب دے گا۔ یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس چلے گئے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے آپ کے ارشاد کا مطلب پوچھا تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ایک دفعہ میں سویا ہوا تھا میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن ہیں۔ تو میں بہت پریشان ہوگیا۔ خواب ہی میں مجھے حکم دیا گیا کہ ان پر پھونک مارو میں نے پھونک ماری تو وہ دونوں اڑ گئے۔ میں نے اس کی یہ تعبیر سمجھی کہ میرے بعد دو جھوٹے شخص پیغمبری کا دعویٰ کریں گے ان میں سے ایک اسود عنسی ہے اور دوسرا مسیلمہ کذاب۔‘‘ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب وفد بنی حنیفۃ۔۔) (٦) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم سے پہلے اگلی امتوں میں ایسے لوگ گزرے ہیں جن کو اللہ کی طرف سے الہام ہوتا تھا۔ اگر میری امت سے کوئی ایسا ہو تو وہ عمر بن خطاب ہوتے‘‘ (حوالہ ایضاً) اور قیامت کے قریب سیدنا عیسیٰ کا نزول ہوگا تو وہ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی بن کر رہیں گے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی شریعت کی اتباع کریں گے علاوہ ازیں نبی ہونے کی حیثیت سے بھی ان کا شمار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے انبیاء میں ہے۔ وہ کوئی نیا دعویٰ نہیں کریں گے۔ ختم نبوت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وحی کے انقطاع کا مسئلہ ایسا مسئلہ ہے جس پر تمام امت کا اجماع ہوچکا ہے۔ اس آیت، ان صریح احادیث صحیحہ اور اجماع کے علی الرغم قادیان ضلع گورداسپور میں ایک شخص مرزا غلام احمد نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ ہم یہاں مختصراً اس کے اس دعویٰ کا جائزہ لینا چاہتے ہیں : (١) مرزا صاحب پہلے خود بھی ختم نبوت کے قائل اور نبوت کا دعویٰ کرنے والے کو کافر سمجھتے تھے۔ چنانچہ حمامۃ البشریٰ میں لکھتے ہیں کہ ’’بھلا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی آئے تو کیسے آئے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وحی بند ہوچکی ہے اور اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نبیوں کو ختم کردیا ہے‘‘ (حمامۃ البشرٰی ٢٠) پھر اسی کتاب کے صفحہ ٧٩ پر لکھتے ہیں کہ ’’مجھے یہ بات زیبا نہیں کہ میں نبوت کا دعویٰ کرکے اسلام سے خارج ہوجاؤں اور کافروں میں جاملوں‘‘ اس وقت تک آپ کا صرف مجدد ہونے کا دعویٰ تھا۔ (٢) مرزا قادیانی کی نبوت کے تدریجی مراحل :۔ پھر اس کے بعد آپ مثیل مسیح بنے۔ پھر مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کردیا۔ اسی بنا پر آپ نے رفع عیسیٰ کا انکار کردیا بلکہ بذریعہ کشف و الہام کشمیر میں آپ کی قبر کی نشاندہی بھی فرما دی اور اعلان فرمایا کہ : ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد ہے پھر اس کے بعد آپ نے کھل کر اپنی نبوت کا دعویٰ کردیا اور یہ بھی کہ مجھ پر وحی آتی ہے اور میں اللہ سے ہم کلام ہوتا ہوں۔ پھر جب آپ ہی کی تحریروں کے مطابق علماء نے آپ پر گرفت کی تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ میں کوئی مستقل نبی نہیں نہ ہی کوئی صاحب شریعت رسول ہوں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہی کی وجہ سے نبی ہوا ہوں اور آپ ہی کا ظل اور بروز (یعنی سایہ یا عکس) ہوں آپ کی اسی ظلی اور بروزی کی اصطلاح پر مولانا ظفر علی خان ایڈیٹر روزنامہ ''زمیندار'' نے ایک بار یوں تبصرہ کیا تھا : بروزی ہے نبوت قادیان کی برازی ہے خلافت قادیان کی گویا آپ بتدریج نبی بنے تھے، پہلے مجددیت کے مدعی تھے پھر مثیل مسیح کے، پھر مسیح موعود کے پھر جب کچھ کام چلتا دیکھا تو نبوت کا دعویٰ کردیا اور قادیان کی سرزمین کو حرام قرار دیتے ہوئے فرمایا : زمین قادیان ارض حرم ہے ہجوم خلق سے اب محترم ہے اگر غور کیا جائے تو آپ کی تدریجی نبوت ہی آپ کے نبوت کے دعویٰ کے ابطال کے لئے بہت کافی ہے کیونکہ تمام تر سلسلہ انبیاء میں سے کوئی نبی اس طرح بتدریج نبی نہیں بنایا گیا تاہم آپ کی پیش کردہ توجیہات کا بھی ہم جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ (٣) ظلی اور بروزی نبی کی اصطلاح : آپ کی پہلی توجیہ یہ ہے کہ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے کرتے یہ درجہ ظلی نبوت حاصل ہوا۔ گویا آپ کے نظریہ کے مطابق نبوت وہبی نہیں بلکہ کسبی چیز ہے اس نظریہ کی قرآن نے ﴿وَاللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہ﴾ کہہ کر بھرپور تردید کی ہے۔ علاوہ ازیں اگر نبوت کسبی چیز ہوتی اور آپ کی اتباع کامل کی وجہ سے حاصل ہوسکتی ہے تو اس کے سب سے زیادہ حقدار صحابہ کرام تھے۔ بالخصوص سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جن کے متعلق صراحت سے احادیث مبارکہ میں آیا ہے ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمررضی اللہ عنہ ہوتے۔ اور ظل اور بروز کا نظریہ تو کئی لحاظ سے آپ کی نبوت کا ابطال کرتا ہے۔ مثلاً (٤) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شاعر نہیں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ شاعری آپ کے شایان شان بھی نہیں۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے سورۃ یسین کی آیت نمبر ٦٩ اور اس کا حاشیہ) جبکہ مرزا صاحب شاعر تھے۔ آپ نے اردو، عربی، فارسی میں بہت سے اشعار اور قصیدے لکھے حتیٰ کہ ایک بہت بڑی کتاب بطور کلیات مرزا صاحب مسمی بہ ''درثمین'' تصنیف اور شائع کی ہے۔ اگر آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کا ظل اور بروز ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو شاعر نہیں تھے۔ یہ عکس میں شاعری کہاں سے آگئی؟ مطلب واضح ہے کہ مرزا صاحب رسول اللہ کا عکس نہیں۔ (٥) آپ کی تضاد بیانی کا یہ حال ہے کہ ایک وقت آپ دعویٰ نبوت کو کفر سمجھتے تھے پھر مثیل مسیح بنے، پھر مسیح موعود بنے، پھر نبوت کا دعویٰ کیا پھر یہ بھی دعویٰ کردیا کہ تمام انبیاء کی خوبیاں مجھ میں جمع اور موجود ہیں۔ چنانچہ اس درثمین میں اردو زبان میں کہا کہ : میں کبھی عیسیٰ کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں۔۔ نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار فارسی میں کہا : انبیاء کرچہ بودہ اند بسے من بعرفان نہ کمترم زکسے۔۔ آنچہ داد ست ہر نبی را جام داد آں جام را مرابہ تمام ترجمہ : اگرچہ انبیاء بہت گزرے ہیں تاہم میں معرفت میں کسی سے کم نہیں ہوں۔ ان میں جس کسی کو کوئی جام معرفت دیا گیا وہ سب کے سب جام مجھے دیئے گئے ہیں۔ اپنی ذات سے متعلق ایسی تضاد بیانی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس کہا جاسکتا ہے؟ یا سابقہ انبیاء میں سے کسی کو تدریجاً کبھی نبی بنایا گیا ہے؟ (٦) چھٹی بات آپ کے مخالفوں کے حق میں آپ کی بدزبانی ہے جنہیں آپ ولدالزنا اور ولد الحرام کہہ کر پکارا کرتے ہیں اور آئینہ کمالات اسلام میں فرمایا کہ ذُرِّیَّۃُ الْبَغَایَا (یعنی کنجریوں کی اولاد) کے علاوہ ہر مسلمان نے مجھے قبول کیا اور میری دعوت کی تصدیق کی بالفاظ دیگر جن مسلمانوں نے میری نبوت کی تصدیق نہیں کی وہ سب کنجریوں کی اولاد ہیں اور ایک بار اپنے مخالف پرلعنت بھیجنے کو جی چاہا تو ہزار بار لعنت کہنے یا لکھنے پر اکتفا نہ کیا بلکہ فی الواقع ہزار بار لعنت کا لفظ لکھ کر کتاب کے تین چار صفحے سیاہ کر ڈالے۔ کیا یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا نمونہ اور ان کا عکس ہے؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے مخالفوں کے حق میں ایسی غلیظ گالیاں ثابت کی جاسکتی ہیں؟ (٧) آپ کی نبوت کی تردید پر دلائل :۔ اور جب اپنی کسر نفسی پر آتے ہیں تو بھی غلیظ زبان استعمال کرتے اور حقائق کا منہ چڑاتے ہیں۔ درثمین ہی میں فرماتے ہیں : کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں۔۔ ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار یعنی اے میرے پیارے میں نہ تو مٹی کا کیڑا ہوں اور نہ آدم کی نسل سے ہوں۔ بلکہ میں بشر کی ''جائے نفرت'' ہوں جس سے سب لوگوں کو شرم آئے۔ اب آپ خود ہی فیصلہ فرما لیجئے کہ وہ بشر کی جائے نفرت کیا چیز ہوسکتی ہے۔ بس وہی چیز مرزا صاحب تھے۔ بایں ہمہ آپ کا دعویٰ یہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس ہیں۔ نیز آپ نہ مٹی سے پیدا ہوئے تھے نہ آدم کی نسل سے تھے۔ تو پھر کیا تھے؟ سابقہ انبیاء تو سب آدم زاد ہی تھے۔ (٨) قرآن اور احادیث میں جہاد فی سبیل اللہ اور بالخصوص قتال فی سبیل اللہ پر جس قدر زور دیا گیا ہے اور جتنے فضائل کتاب و سنت میں مذکور ہیں وہ سب کو معلوم ہیں۔ حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود سترہ غزوات میں حصہ لیا۔ اور ساتھ ہی یہ فرما دیا کہ یہ جہاد تاقیامت جاری رہے گا۔ لیکن مرزا صاحب نے اس جہاد کی ممانعت کا یوں فتوی دیا کہ : اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال۔۔ دین کے لئے حرام ہے اب جنگ و قتال دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد۔۔ منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد (درثمین ص ٥٣) آخری مصرع میں نبی سے مراد غالباً مرزا صاحب خود ہیں۔ غور فرمائیے کہ ایسا شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس ہوسکتا ہے؟ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا کہ: ’’میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں شہید ہوجاؤں، پھر زندہ ہوں پھر مارا جاؤں، پھر زندہ ہوں پھر مارا جاؤں‘‘ (بخاری۔ کتاب التمنی۔ باب من تمنی الشہادۃ) پھر یہ بھی غور فرمایئے مرزا صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس ہیں یا ان کی آرزو اور تعلیم کو ملیا میٹ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں اور ان کی ضد ہیں۔ (٩) جہاد بالسیف کی بھرپور مخالفت :۔ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے حکومت وقت کا ساتھ دیا ہو بلکہ نبی کا تو کام ہی یہ ہوتا ہے کہ بگڑے ہوئے معاشرہ کی اصلاح کرے اور سرکاری درباری حضرات، آسودہ حال طبقہ اور چودھری لوگ ہمیشہ انبیاء کے مخالف رہے ہیں۔ مگر یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ مرزا صاحب اور ان کی نبوت انگریز بہادر کے سایہ عاطفت میں پروان چڑھتی ہے۔ اور آپ بھی ہر وقت گورنمنٹ عالیہ کی تعریف میں رطب اللسان رہتے ہیں نیز وہ اپنی زبان سے اپنے آپ کو گورنمنٹ کا ''خود کا شتہ پودا'' ہونے کا اقرار فرماتے ہیں۔ اب دو ہی باتیں ممکن ہیں ایک یہ کہ انگریز کی حکومت کو صحیح اسلامی حکومت تسلیم کرلیا جائے۔ اس صورت میں مرزاصاحب کی نبوت کی ضرورت ہی ختم ہوجاتی ہے کیونکہ نبی ہمیشہ بگاڑ کی اصلاح کے لئے آتا ہے اور دوسری صورت یہی باقی رہ جاتی ہے کہ نبی اپنے دعویٰ نبوت میں جھوٹا ہو۔ اور یہی صورت حال مرزا صاحب کی نبوت پر صادق آتی ہے۔ آپ کا اپنے بارے میں انگریز کا خود کاشتہ پودا ہونے کا اعتراف :۔ ہوا یہ تھا کہ جب ہندوستان میں انگریز بہادر کی حکومت قائم ہوگئی تو ساتھ ہی زیر زمین جہاد کی تحریک شروع ہوگئی جس سے انگریز کو ہر وقت خطرہ لاحق رہتا تھا۔ اس نے اس کا حل یہ سوچا کہ مسلمانوں کی آپس میں پھوٹ ڈال دی جائے اور دوسرے جہاد کی روح کو حتی الامکان مسلمانوں کے اذہان سے خارج کردیا جائے۔ ان کاموں کے لئے اس کی نظر انتخاب مرزا غلام احمد قادیانی پر پڑی۔ مرزا صاحب نے انگریز بہادر کے دونوں کام سرانجام دیئے۔ جہاد بالسیف کی جی بھر کر مخالفت کی اور اپنے پیروکاروں کے علاوہ باقی سب مسلمانوں پر کفر کا فتویٰ بھی لگا دیا۔ جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ مرزائی مسلمانوں کا جنازہ تک نہیں پڑھتے۔ قائداعظم کی نماز جنازہ کے وقت سرظفر اللہ خاں پرے ہی کھڑے رہے مگر نماز جنازہ میں شریک نہ ہوئے۔ اور انگریز نے مرزا صاحب کے ان ''احسانات'' کا بدلہ یہ دیا کہ ان کی نبوت اور ان کی امت کو پورا پورا تحفظ دیا اور انھیں زیادہ سے زیادہ ملازمتیں دے کر انھیں حکومت میں آگے لے آیا۔ یہی وجہ ہے کہ مرزائی اقلیت میں ہونے کے باوجود حکومت کے بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہیں۔ علاوہ ازیں ان حضرات کو ہر طرح مراعات بھی دی جاتی ہیں۔ (١٠) محمدی بیگم سے نکاح کی پیشگوئی کا حشر :۔ آپ کی نبوت کے ابطال پر دسویں دلیل آپ کی جھوٹی پیشین گوئیاں ہیں۔ آپ محمدی بیگم سے نکاح کرنا چاہتے تھے۔ تو آپ نے مشہور کردیا کہ مجھے بذریعہ وحی معلوم ہوا ہے کہ میرا محمدی بیگم سے آسمانوں پر نکاح ہوا ہے۔ محمدی بیگم کے اولیاء سے جو مرزا صاحب کی اپنی برادری کے لوگ تھے، مرزا صاحب نے درخواست کی تو انہوں نے رشتہ دینے سے انکار کردیا۔ جس پر آپ اپنی وحی کی بنا پر کئی طرح کی دھمکیاں اور وعیدیں محمدی بیگم کے اولیاء کو سناتے رہے۔ لیکن ان لوگوں پر مرزا صاحب کی دھمکیوں کا خاک بھی اثر نہ ہوا۔ اور نہ ہی ان دھمکیوں کے مطابق انھیں کچھ نقصان پہنچا۔ انہوں نے محمدی بیگم کو کسی دوسری جگہ بیاہ دیا۔ جہاں اس کے ہاں اولاد بھی ہوئی اور سکھ چین سے زندگی بسر کرتی رہی اور مرزا صاحب اس سے شادی کی حسرت دل میں لئے اگلے جہاں کو سدھار گئے۔ اور آسمانوں کا نکاح آسمانوں پر ہی رہ گیا زمین پر نہ ہوسکا۔ بعد میں آپ کے متبعین نے مرزا صاحب کے الہامات اور وحیوں کی یہ تاویل فرمائی کہ کسی دور میں مرزا صاحب کی اولاد در اولاد میں سے کسی لڑکے کا محمدی بیگم کی اولاد در اولاد میں سے کسی لڑکی سے نکاح ضرور ہوگا۔ ایسی اندھی عقیدت بھی قابل ملاحظہ ہے۔ (١١) مولانا ثناء اللہ امرتسری سے مباہلہ اور مرزا صاحب کی وفات :۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری کے مرزا صاحب سخت دشمن تھے۔ کیونکہ وہ بھی ہاتھ دھو کر مرزا صاحب کے پیچھے پڑے ہوئے تھے۔ آخر مرزا صاحب نے مولوی ثناء اللہ کو ١٥۔ اپریل ١٩٠٧ ء کو ایک طویل خط لکھا جس کا ماحصل یہ تھا کہ ’’اے اللہ! اگر میں جھوٹا اور مفتری ہوں تو میں ثناء اللہ کی زندگی میں ہلاک ہوجاؤں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ کذاب اور مفتری کی لمبی عمر نہیں ہوتی۔ اور اگر ثناء اللہ جھوٹا ہے تو اسے میری زندگی میں نابود کر مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون اور ہیضہ وغیرہ امراض مہلکہ سے‘‘ اور ساتھ ہی مرزا صاحب نے یہ استدعا بھی کی کہ میرے اس خط کو من و عن اپنے اخبار میں شائع کردیا جائے۔ چنانچہ مولوی ثناء اللہ امرتسری نے مرزا صاحب کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اس طویل خط کو اپنے ہفت روزہ ''اہلحدیث'' کی ٢٥ مئی ١٩٠٧ ء کی اشاعت میں شائع کردیا۔ اس خط کا انداز بیان اگرچہ دعائیہ تھا تاہم مرزا صاحب نے بذریعہ الہام اس بات کی توثیق فرما دی کہ ان کی دعا قبول ہوگئی اور یہ الہام البدر قادیان ٢٥ اپریل ١٩٠٧ ء میں شائع ہوا۔ اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مرزا صاحب اس سے تیرہ ماہ بعد ٢٦ مئی ١٩٠٨ ء کو بعارضہ ہیضہ بمقام لاہور انتقال کر گئے اور مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب اللہ کے فضل سے مارچ ١٩٤٨ ء تک یعنی مرزا صاحب کی وفات سے چالیس سال بعد تک زندہ رہے۔ مرزا صاحب کے انتقال کے بعد جب یہ شور اٹھا کہ مرزا صاحب اپنے دعوائے نبوت میں جھوٹے ثابت ہوئے تو اتباع مرزا نے اس شرط کو بدل دینا چاہا کہ شرط دراصل یہ تھی کہ جو جھوٹا ہوگا وہ زندہ رہے گا اور مباحثہ کرنا چاہا اور خود ہی یہ صورت پیش کی کہ فیصلہ کے لئے ایک غیر مسلم ثالث ہوگا اور ہم اگر ہار جائیں تو مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب کو تین سو روپے (یعنی آج کے لحاظ سے کم از کم تیس ہزار روپے) دیں گے۔ ورنہ مولوی ثناء اللہ ہمیں اتنی ہی رقم دے۔ اس اعلان کے مطابق اپریل ١٩١٢ ء میں بمقام لودھیانہ مباحثہ ہوا جس میں ثالت سردار بچن سنگھ جی پلیڈر لودھیانہ مقرر ہوئے۔ اس مباحثہ میں ثالث نے مولانا ثناء اللہ کے حق میں فیصلہ دیا اور انعام یا شرط کی مجوزہ رقم آپ کو مل گئی۔ یہ تھی مرزا صاحب کی ذات گرامی جو اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظل اور بروز ہونے کی مدعی تھی۔ اور جو حکومت پاکستان نے ١٩٧٤ ء میں قومی اسمبلی میں کثرت رائے کی بنا پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا تو اس کی وجہ ان صریح احادیث کا انکار ہے جو ہم ابتدا میں درج کر آئے ہیں بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان بھی لائے پھر ان کی بات بھی نہ مانے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے علی الرغم نہ صرف ان احادیث کا انکار کرے بلکہ اپنی نبوت و رسالت کا بھی دعویٰ کرے۔ حکومت پاکستان کا مرزائیوں کو کافر قرار دینا :۔ مرزائی حضرات مرزا صاحب کی نبوت کی صداقت پر عموما سورۃ الحاقہ کی آیات نمبر ٤٤ تا ٤٦ پیش کیا کرتے ہیں کہ ’’اگر یہ رسول (یعنی محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے پاس سے کوئی بات گھڑ کر ہمارے ذمہ لگا دے تو ہم اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی رگ جان کاٹ دیں‘‘ اور وجہ استدلال یہ بیان کی جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ نبوت ٢٣ سال ہے اور مرزا صاحب تو اس مدت سے زیادہ زندہ رہے اگر انہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا تھا تو اللہ کی طرف سے ایسی کوئی سزا ضرور ملنا چاہئے تھی اور جب ایسی سزا نہیں ملی تو معلوم ہوا کہ آپ اپنے دعویٰ نبوت میں سچے تھے۔ اس کا تفصیلی جواب تو ہم سورۃ الحاقہ میں ہی دیں گے۔ مختصراً یہ کہ اگر ایسا افترا کوئی نبی لگائے تو اسے تو یقیناً ایسی سزا بھی ملے گی۔ لیکن کوئی عام شخص اللہ پر جھوٹ باندھے تو یہ سزا نہیں ملتی جیسے ایک گورنر اپنی طرف سے کوئی فرمان جاری کرکے اسے صدر مملکت کے ذمہ لگائے تو اس سے ضرور مواخذہ ہوگا۔ لیکن ایک خاکروب یا کوئی عام آدمی صدر کے خلاف جو جی چاہے بکتا رہے۔ اسے کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ مرزا صاحب کو ایسی سزا نہ ملنے سے تو الٹا آپ کی نبوت کی تردید ہوجاتی ہے۔ قادیانیوں کی طرف سے آپ کی نبوت پر دلائل اور ان کا جواب :۔ مرزائی حضرات نبوت کے اجراء کے لئے ایک عقلی دلیل بھی دیا کرتے ہیں کہ نبوت اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ جس کے لوگ ہر وقت محتاج ہیں۔ بالخصوص آج کے دور انحطاط میں تو ایسی رحمت کی اشد ضرورت ہے۔ لہٰذا خاتم کے معنی مہر تصدیق ہونا چاہئیں۔ یعنی اس نبی کی نبوت درست ہوگی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرتا ہو اور آپ کی شریعت کا متبع ہو۔ اس دلیل کے جوابات درج ذیل ہیں : ١۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿لٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّـبِیّٖنَ ﴾ اور ساتھ ہی فرما دیا کہ : ﴿وَکَان اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِــیْمًا ﴾یعنی اللہ تعالیٰ اس بات کو بھی خوب جانتا ہے کہ آئندہ تاقیامت کسی نبی کو بھیجنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ٢۔ یہ دلیل جو کچھ بھی ہے بہرحال ایک عقلی دلیل ہے۔ اور نص کے مقابلہ میں قیاس یا عقل کے گھوڑے دوڑانا حرام ہے۔ ٣۔ ان حضرات کا دعوائے ضرورت اس لحاظ سے بھی غلط ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واشگاف الفاظ میں بتادیا کہ ’’میری امت میں سے ایک فرقہ تاقیامت حق پر قائم رہے گا‘‘ صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ کون سا گروہ ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں‘‘ (ترمذی۔ کتاب الایمان۔ باب الافتراق ھذہ الامۃ) گویا آج صرف دیکھنے کا کام یہ ہے کہ وہ کون سا فرقہ یا گروہ ہے جو صرف کتاب و سنت سے رہنمائی لیتا ہے۔ اس میں کچھ کمی بیشی نہیں کرتا نہ کتاب و سنت کے مقابلہ میں کسی دوسری شخصیت کا قول یا فتویٰ قبول کرتا ہے اور نہ ہی دین میں کوئی نئی بات، خواہ عقیدہ سے تعلق رکھتی ہو یا عمل سے، شامل کرتا ہے۔ اور ایسے گروہ کی موجودگی کسی نئے نبی کی آمد کی ضرورت کو ختم کردیتی ہے۔ اور ایسا فرقہ چونکہ تاقیامت باقی رہے گا لہٰذا تاقیامت کسی نبی کی ضرورت باقی نہ رہی۔ نئے نبی کی ضرورت کس صورت میں ہوتی ہے :۔ علاوہ ازیں انبیاء کی بعثت کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ سابقہ قومیں یا امتیں کتاب اللہ میں تحریف کر ڈالتی ہیں یا ان میں علمائے امت کے اقوال اور الحاقی مضامین شامل کرکے کتاب اللہ کو گڈ مڈ کردیتی ہیں نبی کا کام یہ ہوتا ہے کہ جو سچی الہامی تعلیم ہوتی ہے اس کی نشاندہی کرتا اور اس کے متعلق دو ٹوک فیصلہ دیتا ہے۔ لیکن امت مسلمہ میں یہ صورت بھی نہیں ان کے پاس کتاب اللہ اسی صورت میں موجود اور محفوظ ہے جس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی۔ پھر کتاب اللہ کے علاوہ اس کی تشریح و تفسیر بھی، جسے حدیث یا سنت کہا جاتا ہے، امت کے پاس موجود اور محفوظ ہے۔ تو پھر آخر کسی نئے نبی کی ضرورت بھی کیا تھی؟ کیا یہی کہ وہ کتاب اللہ پر ایمان رکھنے والوں میں انتشار ڈال دے اور باقی سب مسلمانوں پر کفر کے فتوے صادر کرنے لگے؟ [ ٦٧] یعنی وہ ان لوگوں کے اعمال سے خوب واقف ہے جنہوں نے اودھم مچا رکھا ہے۔ اور وہ اپنے احکام کی مصلحتوں کو بھی خوب جانتا ہے۔