إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا
بے شک مسلم مرد اور مسلم عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور فرماں بردار مرد اور فرماں بردار عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں اور صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کا بہت ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، ان کے لیے اللہ نے بڑی بخشش اور بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔
[ ٥٤] اسلام کی دس بنیادی اقدار :۔ اس آیت میں مسلمانوں کی دس ایسی صفات کا ذکر آیا ہے جنہیں اسلام کی بنیادی اقدار کا نام دیا جاسکتا ہے۔ پہلی صفت اسلام لانا ہے۔ اور اس کا انحصار دو شہادتوں پر ہے کہ جو شخص یہ اقرار کرے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتا ہے۔ اسلام کے بعد دوسری صفت ایمان ہے۔ ایمان کا مطلب یہ ہے کہ دو شہادتیں اس کے دل میں جانشین ہوجائیں اور دل بھی ان کی تصدیق کرے اور انسان اسلام کے تقاضے اور بنیادی ارکان کے لئے مستعد ہوجائے۔ جب تک انسان دعویٰ اسلام کے ساتھ دل کی تصدیق اور ساتھ ہی ساتھ اعمال صالح بجا نہ لائے اس کے ایمان کے دعویٰ کو غلط اور جھوٹ سمجھا جائے گا۔ تیسری صفت یہ ہے کہ وہ لوگ صرف زبانی حد تک ہی اللہ کے اور اس کے رسول کے احکام کے قائل نہیں ہوتے۔ بلکہ عملی لحاظ سے بھی ہر وقت انھیں ماننے پر اور مطیع فرمان بن کر رہنے پر تیار رہتے ہیں۔ چوتھی صفت یہ ہے کہ وہ سچے اور راست باز ہوتے ہیں۔ اپنے معاملات میں جھوٹ، مکر، ریا کاری اور دغا بازی سے حتی الوسع اجتناب کرتے ہیں۔ پانچویں صفت یہ ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں۔ نیز احکام الٰہی پر پورے صبر و ثبات کے ساتھ عمل پیرا ہوتے ہیں۔ چھٹی صفت یہ ہے کہ ان میں تکبر نام کو نہیں ہوتا۔ ان کی وضع قطع، چال ڈھال، اور گفتگو کبر و نخوت سے پاک ہوتی ہے۔ اس کے بجائے ان میں دوسروں کے لئے تواضع اور انکسار موجود ہوتا ہے۔ وہ ہر ایک سے عزت و احترام سے پیش آتے ہیں۔ اس مقام پر لفظ خاشعین استعمال ہوا ہے اور خشوع کے معنی ایسا خوف یا جذبہ ہے جس کے اثرات جوارح پر ظاہر ہونے لگیں۔ پھر یہی لفظ بول کر اس سے نماز بھی مراد لی جاسکتی ہے کیونکہ خشوع ہی نماز کی روح ہے اور یہاں نماز مراد لینا اس لحاظ سے بھی مناسب ہے کہ آگے صدقہ اور روزہ کا ذکر آرہا ہے۔ ساتویں صفت یہ ہے کہ وہ متصدق ہوتے ہیں اور اس لفظ میں تین مفہوم شامل ہیں۔ ایک یہ کہ وہ زکوٰ ۃ (فرضی صدقہ) ادا کرتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ نفلی صدقات سے محتاجوں کی احتیاج کو دور کرتے اور ان کاموں میں خرچ کرتے ہیں جن کا شریعت نے حکم دیا ہے اور تیسرا یہ کہ اگر کسی سے قرض وغیرہ لینا ہو تو وہ معاف کردیتے ہیں۔ یعنی اپنے حق سے دستبردار ہوجاتے ہیں۔ آٹھویں صفت یہ ہے کہ وہ فرضی روزے تو ضرور رکھتے ہیں ان کے علاوہ نفلی روزے بھی حسب توفیق رکھتے ہیں۔ نویں صفت یہ ہے کہ وہ زنا سے بھی بچتے ہیں اور عریانی اور برہنگی سے بھی اجتناب کرتے ہیں اور دسویں صفت یہ ہے کہ وہ اپنے اکثر اوقات میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور یاد رکھتے ہیں۔ یاد کرنے سے مراد تسبیح و تہلیل اور اللہ کے ذکر سے زبان کو تر رکھنا ہے اور یاد رکھنے سے مراد یہ ہے کہ وہ کوئی کام کریں انھیں ہر وقت دل میں اللہ کا خوف رہتا ہے۔ جو انھیں اللہ کی نافرمانی سے بچاتا ہے۔ اور حقیقت ہے کہ تمام عبادتوں کی روح یہی اللہ کا ذکر یا اللہ کی یاد ہے۔ باقی سب عبادتوں کا کوئی نہ کوئی وقت ہوتا ہے مگر اس عبادت کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ اور یہ ہر وقت کی جاسکتی ہے اور اسی اللہ کی یاد سے ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ بندے کا اپنے اللہ سے تعلق کس حد تک مضبوط ہے یا کمزور ہے۔ عام طور پر مردوں کو ہی کیوں مخاطب کیا جاتا ہے اعمال کے اجر میں مرد اور عورت برابر ہیں :۔ اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ بعض ازواج مطہرات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کہ قرآن میں عام طور پر مردوں کو ہی خطاب کیا گیا ہے۔ عورتوں کا ذکر کم ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ اس آیت میں ایک ایک صفت میں مردوں کے ساتھ عورتوں کا بھی ذکر کیا گیا۔ اور یہ بعض ازواج (سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا) کا محض جذبہ اشتیاق ہی تھا کہ عورتوں کا الگ سے نام لیا جانا چاہئے۔ ورنہ ہر زبان کا اور اسی طرح عربی زبان کا یہ ہی دستور ہے کہ جب کسی مردوں اور عورتوں کے مشترکہ اجتماع کو خطاب کرنا ہو تو جمع مذکر کا صیغہ ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ اور عورتیں بالتبع اس خطاب میں شامل ہوتی ہیں۔ چنانچہ اس آیت میں یہ وضاحت کردی گئی کہ عمل کرنے والا مرد ہو یا عورت کسی کی محنت اور کمائی اللہ کے ہاں ضائع نہیں جاتی۔ دوسرے یہ کہ ان دونوں کی کمائی کے اجر میں کچھ فرق نہ ہوگا۔ اخلاقی ترقی اور روحانی کمال دونوں کے سامنے ایک جیسا وسیع ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مردوں کا دائرہ عمل عورتوں کے دائرہ عمل سے الگ ہے۔ مرد کے لئے اگر جہاد میں بڑا درجہ ہے تو عورتوں کے لئے اولاد کی صحیح تربیت میں بڑا درجہ ہے۔ البتہ جن مسائل کا تعلق ہی عورتوں سے ہے ان میں عورتوں کو ہی خطاب کیا گیا ہے۔