وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَىٰ فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا
اور تمھارے گھروں میں اللہ کی جن آیات اور دانائی کی باتوں کی تلاوت کی جاتی ہے انھیں یاد کرو۔ بے شک اللہ ہمیشہ سے نہایت باریک بین، پوری خبر رکھنے والا ہے۔
[ ٥٢] حکمت کیا چیز ہے :۔ حکمت کا معنی صرف دانائی یا دانائی کی باتیں ہیں۔ پھر اس کی دو قسمیں ہیں ایک حکمت علمی یعنی آیات قرآنی سے استنباطات اور اجتہادات دوسرے حکمت عملی۔ یعنی احکام الٰہی کو عملی طور پر نافذ کرنے کا طریقہ کار۔ قرآن میں بے شمار مقامات پر کتاب و حکمت کا لفظ اکٹھا آیا ہے۔ اور امام شافعی نے بے شمار دلائل سے یہ ثابت کیا ہے کہ حکمت سے مراد سنت نبوی ہے۔ یعنی خواہ آپ زبانی کسی آیت کی تشریح و تفسیر امت کو سمجھا دیں یا کسی حکم پر عمل کرکے امت کو دکھا دیں۔ یہ سب کچھ حکمت کے مفہوم میں شامل ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ساری حکمت صرف سنت نبوی میں ہی محصور ہے بلکہ قرآن میں بھی موجود ہے اسی لئے اسے القرآن الحکیم کہا گیا ہے۔ اب چونکہ منکرین حدیث، حدیث کی حجیت کے قائل نہیں تو ان کے ایک نمائندہ حافظ اسلم صاحب جیراجپوری نے اس آیت پر اعتراض جڑ دیا کہ کیا ازواج مطہرات کے گھروں میں اللہ کی آیات کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بھی پڑھی جاتی تھیں؟ (مقام حدیث ص ١٢ مطبوعہ ادارہ طلوع اسلام، لاہور) منکرین حدیث کا ایک اعتراض اور اس کا جواب :۔ حافظ صاحب نے اس اعتراض میں دھوکا دینے کی کوشش فرمائی ہے۔ امام شافعی نے حکمت سے مراد سنت نبوی بتایا ہے۔ حدیث نہیں بتایا۔ اور حدیث اور سنت میں کئی لحاظ سے فرق ہے۔ جس کی تفصیل کا یہ موقعہ نہیں۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے آئینہ پرویزیت) لہٰذا صرف ایک آدھ اشارہ پر ہی اکتفا کروں گا۔ مثلاً قرآن میں تقریباً سات سو مقامات پر نماز کی ادائیگی کا حکم ہے۔ مگر اس کی مکمل ترکیب کسی ایک جگہ بھی مذکور نہیں۔ یہ ہمیں صرف آپ کے نماز ادا کرنے سے معلوم ہوئی۔ یہ حکمت ہے اور حکمت عملی لیکن یہ حکمت قرآن میں مذکور نہیں۔ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق آپ صحابہ کو التشہد اسی طرح پڑھاتے اور یاد کراتے اور پھر سنتے تھے جیسے قرآنی آیات پڑھاتے تھے اور حکمت علمی اور عملی دونوں قرآن میں مذکور نہیں۔ یہی حال باقی سب احکام کا ہے۔ گویا قرآن کے حکیم ہونے کے باوجود حکمت کا کثیر حصہ سنت نبوی سے ہمیں معلوم ہوا ہے۔ [ ٥٣] تبلیغ دین میں ازواج کا کردار :۔ لفظ واذْ کُرْنَ کے دو معنی ہیں ایک معنی ’’یاد رکھو‘‘ اور دوسرا معنی ’’بیان کرو‘‘ پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ اے نبی کی بیویو! تمہارا گھر وہ گھر ہے جہاں سے دنیا بھر کو آیات الٰہی اور حکمت و دانائی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ لہٰذا تم اس بات کو خوب یاد رکھو اور اچھی طرح ذہن نشین کرلو کہ اس معاملہ میں تمہاری ذمہ داری بڑی سخت ہے۔ تمہیں اپنا ہر عمل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی منشا کے مطابق کرنا ہوگا اور دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ جو کچھ تم آیات الٰہی اور حکمت کی باتیں سنو اور دیکھو۔ اسے لوگوں کے سامنے بیان کرو۔ کیونکہ زندگی کا ایک اہم پہلو یا گھریلو زندگی سے متعلق بہت سے امور ایسے ہیں جو تمہارے علاوہ کسی اور ذریعہ سے معلوم نہیں ہوسکتے۔