وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَٰذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ۚ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا
اور جب مومنوں نے لشکروں کو دیکھا تو انھوں نے کہا یہ وہی ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا، اور اس چیز نے ان کو ایمان اور فرماں برداری ہی میں زیادہ کیا۔
[ ٣١] آپ کا بنو غطفان کو اتحادیوں سے توڑنے کا خیال اور انصار کا جواب :۔ منافقوں کے کردار پر تبصرہ کرنے کے بعد اللہ نے مسلمانوں کا کردار بیان فرمایا۔ کہ جوں جوں ان پر مشکلات پڑتی ہیں اور حالات سنگین ہوتے جاتے ہیں توں توں ان کا حوصلہ بڑھتا جاتا ہے۔ ان کے اللہ پر توکل اور ان کے ایمان میں بھی مزید اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ انھیں خوب معلوم ہوتا ہے کہ ان مشکلات کا مقابلہ ہم نے ہی کرنا ہے۔ پھر جو کام ہماری بساط سے باہر ہو تو اس وقت ضرور اللہ کی مدد ہمارا ساتھ دے گی۔ پھر جب اللہ کی مدد فی الواقع ان کو پہنچ جاتی ہے تو ان کے ایمان میں اور بھی زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ جب بنو قریظہ بھی عہد شکنی کرکے اتحادی لشکروں سے مل گئے اور مسلمانوں کے لئے اندر بھی اور باہر بھی خطرہ پیدا ہوگیا تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن میں ایک تجویز آئی جو محض انصار کی دلجمعی کی خاطر تھی۔ وہ تجویز یہ تھی کہ بنو غطفان۔۔۔ جو ایک انتہائی لالچی اور حریص قبیلہ تھا اور ان کی سیاست کا سنہری اصول محض پیسہ کا حصول تھا ان کو مدینہ کی تہائی پیداوار کا لالچ دے کر انھیں اتحادیوں سے کاٹ دیا جائے اور وہ اپنا قبیلہ لے کر واپس چلے جائیں۔ چونکہ یہ قبیلہ سخت جنگجو تھا لہٰذا اس کی واپسی سے باقی سارے لشکر میں عام بددلی پھیل جانے کا امکان تھا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ اوس کے سردار سعدرضی اللہ عنہ بن معاذ اور قبیلہ خزرج کے سردار سعد بن عبادہ کو بلا کر ان سے مشورہ کیا۔ دونوں نے یک زبان ہو کر پوچھا : ’’یہ اللہ کا حکم ہے یا آپ ہماری رائے لینا چاہتے ہیں؟ اگر اللہ کا حکم ہے تو سر آنکھوں پر اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کچھ ہماری خاطر کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ بات قطعاً منظور نہیں۔ واللہ ہم نے شرک کی حالت میں بھی ان لوگوں کو ایک دانہ تک نہ دیا۔ اب مسلمان ہو کر کیوں دیں گے۔ ان کے لئے ہمارے پاس صرف تلوار ہے‘‘ انصاری سرداروں کے اس جواب سے آپ خوش ہوگئے اور فرمایا : ’’یہ اللہ کا حکم نہیں یہ تو میں نے صرف تمہاری دلجمعی کی خاطر سوچا تھا‘‘ (الرحیق المختوم اردو ص ٤٨٧)