وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُو رُءُوسِهِمْ عِندَ رَبِّهِمْ رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ
اور کاش! تو دیکھے جب مجرم لوگ اپنے رب کے پاس اپنے سر جھکائے ہوں گے اے ہمارے رب! ہم نے دیکھ لیا اور ہم نے سن لیا، پس ہمیں واپس بھیج، ہم نیک عمل کرینگے، بے شک ہم یقین کرنے والے ہیں۔
[ ١٣] ان کا یہ مطالبہ بھی بالکل عبث ہوگا کیونکہ انسان کو عقل و شعور تو اس لئے دیا گیا تھا کہ ان سے کام لیتے ہوئے اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور یہی ایمان بالغیب کا مطلب ہے۔ اور اسی چیز کا انسان سے مطالبہ ہے۔ پھر جب انسان نے اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ لیا تو اس کا ایمان اضطراری ہوا، اختیاری نہ رہا۔ نہ ہی اسے ایمان بالغیب کہہ سکتے ہیں۔ اس مقام پر ان کے اس مطالبہ پر جواب نہیں دیا گیا۔ جبکہ ایک دوسری جگہ پر یہ جواب دیا گیا ہے کہ دوبارہ دنیا میں بھیجنا اللہ کا دستور نہیں تاہم بفرض محال اگر ہم انھیں دوبارہ دنیا میں بھیج بھی دیں تو پھر یہ لوگ ویسے ہی کام کریں گے جیسے پہلے کرکے آئے ہیں۔ یہ لوگ پھر دنیا اور اس کی دلفریبیوں پر ویسے ہی مفتوں ہوجائیں گے جیسا کہ پہلے تھے۔ اور پہلی سی شرارتیں پھر شروع کردیں گے۔