إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ
بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی مثال کی طرح ہے کہ اسے تھوڑی سی مٹی سے بنایا، پھر اسے فرمایا ہوجا، سو وہ ہوجاتا ہے۔
[٥٥]وفد نجران اور الوہیت عیسیٰ :۔ اس آیت سے عیسائیوں کے عقیدہ الوہیت مسیح کی تردید کا آغاز ہو رہا ہے۔ ٨ ھ کے آواخر میں مکہ فتح ہوگیا تو ٩ ھ میں وفود عرب کی مدینہ میں آمد شروع ہوگئی۔ ان میں کچھ لوگ تو اسلام قبول کرنے آتے تھے اور کچھ اسلام کی باتیں سیکھنے کے لیے۔ چنانچہ اسی زمانہ میں نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد بھی مدینہ میں آیا۔ نجران حجاز اور یمن کے درمیان ایک علاقہ ہے۔ جہاں عیسائیوں کی جمہوری حکومت تھی۔ اس وقت اس علاقہ میں ٧٣ بستیاں شامل تھیں اور ایک لاکھ سے زائد جنگی مرد یہاں موجود تھے۔ یہ حکومت تین سرداروں کے زیر حکم تھی۔ ایک عاقب کہلاتا تھا۔ جس کی حیثیت امیر قوم کی تھی۔ دوسرا سید کہلاتا تھا جو ان کے سیاسی اور تمدنی امور کی نگرانی کرتا تھا اور تیسرا سقف (بشپ یا لاٹ پادری) کہلاتا تھا جو ان کا مذہبی پیشوا ہوتا تھا۔ اس وفد میں یہ تینوں سردار شامل تھے۔ اس وقت کے عاقب کا نام عبدالمسیح، سید کا نام ایہم اور لاٹ پادری ابو الحارث بن علقمہ تھا۔ تینوں سردار ساٹھ آدمی اپنے ہمراہ لے کر مدینہ پہنچے۔ یہ لوگ جنگ نہیں کرنا چاہتے تھے۔ کیونکہ اب مسلمانوں کی ایک مضبوط حکومت قائم ہوچکی تھی۔ تاہم وہ اسلام بھی قبول کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ ان کا مذہبی پیشوا ابو الحارث بن علقمہ ایک عربی النسل آدمی تھا۔ حقیقت کو سمجھتا بھی تھا۔ مگر محض دنیوی مفادات کی خاطر وہ لاٹ پادری بن گیا تھا۔ آدمی ذہین اور معاملہ فہم تھا۔ لہٰذا عیسائیوں نے اس کی خاطرخواہ آؤ بھگت کی اور مال و جاہ سے نوازا تھا۔ ان کی آمد کا مقصد صرف یہ تھا کہ بحث و مناظرہ میں مسلمانوں کو لاجواب کیا جائے۔ چنانچہ آتے ہی انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے الوہیت مسیح کے موضوع پر بحث شروع کردی۔ ان کا طرز استدلال یہ تھا کہ تم لوگ جب یہ تسلیم کرتے ہو کہ عیسیٰ علیہ السلام معجزانہ طور پر بن باپ پیدا ہوئے تھے۔ پھر تم یہ بھی تسلیم کرتے ہو کہ یہودی انہیں مارنے پر قادر نہ ہوسکے اور انہیں آسمانوں پر اٹھا لیا گیا تھا تو یہ صفات کسی بندے کی نہیں ہوسکتیں۔ نیز تم انہیں کلمۃ اللہ اور روح اللہ بھی تسلیم کرتے ہو تو پھر اس سے بڑھ کر ان کی الوہیت کی کیا دلیل ہوسکتی ہے؟۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب کوئی ایسی صورت حال پیش آتی تو فوراً جواب دینے کی بجائے وحی کا انتظار فرماتے چنانچہ آپ نے انہیں صاف کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آنے پر تمہیں ان باتوں کا جواب دوں گا۔ اسی موقعہ پر اس سورۃ کی تقریباً تیس آیات نازل ہوئیں جن میں حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی پیدائش کا تفصیلی ذکر ہے، اور ان میں عقیدہ الوہیت مسیح کا پورا پورا رد موجود ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش معجزانہ طور پر ہوئی تو اسے اللہ کی قدرت کا کرشمہ تو کہا جاسکتا ہے۔ ان میں ان کا اپنا کیا کمال ہے کہ انہیں الٰہ تسلیم کیا جائے اور اگر حضرت عیسیٰ مردوں کو زندہ کرتے تھے تو وہ صاف کہہ دیتے تھے کہ میں یہ اللہ کے اذن سے سر انجام دے رہا ہوں یہی صورت حال ان کے رفع کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی نے انہیں یہود سے بچایا اور اپنی طرف اٹھا لیا۔ عیسیٰ علیہ السلام تو اپنی مدد کے بھی محتاج تھے وہ الٰہ کیسے بن گئے؟ عیسیٰ اور آدم کی مثلیت:َ۔دوسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ آیات سنائیں تو انہوں نے ابنیت مسیح کے متعلق ایک دوسرا سوال کردیا اور کہا کہ بتلاؤ کہ اگر عیسیٰ علیہ السلام ابن اللہ نہیں تو ان کا باپ کون تھا ؟ مذکورہ آیت ان کے اسی سوال کے جواب میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر باپ کا نہ ہونا اللہ کی ابنیت یا الوہیت کی دلیل بن سکتا ہے تو پھر حضرت آدم علیہ السلام اس الوہیت کے عیسیٰ علیہ السلام سے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ ان کا باپ کے علاوہ ماں بھی نہ تھی۔ لیکن تم انہیں تو الٰہ نہیں مانتے پھر عیسیٰ کو کیوں مانتے ہو؟ لیکن یہ لوگ چونکہ ہدایت حاصل کرنے یا اسلام لانے کے لیے آئے ہی نہ تھے اور محض کج بحثی اور بحث و مناظرہ سے اپنے مذہب کی حقانیت ثابت کرنا چاہتے تھے۔ لہٰذا اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان سے متعلق دو ٹوک فیصلہ سنادیا کہ اگر یہ لوگ کج بحثی ترک نہیں کرتے اور انہیں اپنے مذہب کی حقانیت پر اتنا ہی وثوق ہے تو پھر مباہلہ کرلیں تاکہ یہ تنازعہ ختم ہوجائے۔ علامہ عنایت اللہ صاحب اثری جو سرسید سے سخت متاثر ہیں اس لئے معجزات کے بھی منکر ہیں۔ اپنی تصنیف عیون زمزم پر بڑی طویل بحث کے بعد فرماتے ہیں کہ ’’آدم اور عیسیٰ میں وجہ مثلیت خاکی ہونے میں تھی کہ کوئی خاکی الٰہ نہیں ہوسکتا‘ کوئی پوچھے کہ اگر وجہ مثلیت یہی ہے، تو خاکی ہونے میں تو آدم کی سب اولاد برابر ہے۔ پھر آدم علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کی کیا تخصیص رہی۔‘‘ نیز کیا اللہ تعالیٰ کا نجران کے عیسائیوں کو یہی وجہ مثلیت بتلانا مقصود تھا۔ جن کا دعویٰ ہی یہ تھا کہ عیسیٰ بشر نہیں تھے۔ بلکہ الٰہ تھے۔؟