خَلَقَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۖ وَأَلْقَىٰ فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِكُمْ وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ ۚ وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ
اس نے آسمانوں کو ستونوں کے بغیر پیدا کیا، جنھیں تم دیکھتے ہو اور زمین میں پہاڑ رکھ دیے، تاکہ وہ تمھیں ہلا نہ دے اور اس میں ہر طرح کے جانور پھیلا دیے اور ہم نے آسمان سے پانی اتارا۔ پھر اس میں ہر طرح کی عمدہ قسم اگائی۔
[١٠]سماء اورفلک میں فرق:۔ اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ ستون ہیں تو سہی مگر تمہیں نظر نہیں آتے اور دوسرا یہ کہ تم دیکھ تو رہے ہو کہ ستون وغیرہ کچھ نہیں اور ستونوں کے سہاروں کے بغیر ہی قائم ہیں۔ اس مقام پر دو تین امور کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ جس جس مقام پر اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کا اکٹھا ذکر کیا ہے اس سے مراد پوری کائنات اور نظام کائنات لیا جائے گا۔ دوسرا یہ کہ لفظ آسمان کے لئے عربی میں دو لغت ہیں ایک فلک (ج افلاک) دوسرا سماء (ج سماوات) فلک سے مراد سیاروں کے مدارات ہیں جن پر وہ گھوم رہے ہیں۔ اور سماء سے مراد بلندی بھی ہے اور آسمان کا وجود بھی جسے اللہ تعالیٰ نے ایک ٹھوس حقیقت اور جسم رکھنے والی چیز کے طور پر پیش فرمایا ہے۔ اور یہ وضاحت اس لئے ضروری ہے کہ موجودہ نظریہ ہیئت کے مطابق آسمان کوئی چیز نہیں بلکہ فقط حد گناہ کا نام ہے۔ جبکہ آسمانوں کا ذکر قرآن میں متعدد بار اور اس کے علاوہ احادیث میں بھی ہے۔ اور اس سورت میں آیا ہے کہ آسمانوں میں دروازے بھی ہیں۔ لہٰذا لفظ سماء کی تحقیق ضروری ہے۔ لفظ سماء کےمختلف معانی :سات زمینوں کی تخلیق:۔سماء کا لفظ بلندی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے یعنی ہر چیز جو ہمارے سر پر سیاہ فگن ہو وہ سماء ہے۔ سماء کی ضد ارض ہے جس کے معنی زمین بھی ہے اور پستی بھی۔ اور یہ دونوں الفاظ اسمائے نسبیہ میں سے ہیں۔ یعنی ایک ہی چیز اپنے سے پست چیز کے مقابلہ میں سماء بھی ہے اور وہی چیز اپنے سے بلند چیز کے مقابلہ ارض بھی۔ یعنی ہماری زمین ارض ہے تو پہلا آسمان اس کے مقابلہ میں سماء ہے۔ اور یہی پہلا آسمان دوسرے آسمان کے مقابلہ میں ارض ہے اور تیسرے آسمان کے مقابلہ میں دوسرا آسمان ارض (نمبر ٣) ہوئی۔ گویا اس لحاظ سے سات آسمانوں کے مقابلہ سات زمینیں بھی آگئیں جیسا کہ ارشاد باری ہے۔ ﴿اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرضی اللہ عنہ مِثْلَہُنَّ ﴾(۱۲:۶۵) یعنی اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان اور ویسی ہی زمینیں پیدا کیں۔ کائنات کی وسعت:۔ پھر یہ بلندی تھوڑی سی ہو تب بھی اس پر سماء کے لفظ کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ جیسے ارشاد باری ہے۔ ﴿وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً ﴾ (۲۲:۲)(اور اس نے آسمان سے مینہ برسایا) یہاں سماء سے مراد بادل ہیں جو میل ڈیڑھ میل کی بلندی پر اڑتے پھرتے ہیں اور اس معمولی سی بلندی کے لئے بھی سماء (آسمان) کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جبکہ درج ذیل آیت :﴿اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْیَا بِزِیْنَۃِ الْکَـوَاکِبِ﴾ (۶:۳۷)(بیشک ہم نے ہی آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے مزین کیا) میں اتنی زیادہ بلندی مراد ہے جتنی دوری پر ستارے چمکتے ہیں۔ خواہ وہ دوری لاکھوں میل پر مشتمل ہو یا کروڑہا اور ارب ہا میلوں پر اور درج ذیل آیت میں سماء (آسمان) کا لفظ یعنی بہت ہی زیادہ بلندی، اتنی بلندی جو سات آسمانوں سے بھی زیادہ ہو یعنی لامحدود بلندی کے لئے استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری ہے۔ ﴿ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَاءِ فَسَوّٰیھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ ﴾(۲۹:۲) (پھر اللہ تعالیٰ آسمان کی طرف متوجہ ہوا تو انھیں ٹھیک سات آسمان بنا دیا) موجودہ ہیئت دان کسی آسمان کے قائل نہیں ہیں ہم ان سے گزارش کریں گے کہ ان کی تمام تر تحقیقات کی رسائی ابھی پہلے آسمانی یعنی آسمان دنیا تک بھی نہیں ہوسکی تو پھر وہ اس کی تردید کیونکر کرسکتے ہیں؟ ان کی تحقیق خواہ کتنی طاقتور اور جدید قسم کی دوربینوں سے ہو خواہ وہ پلوٹو کی دوری ہو یا الفا قنطورس کی یا قلب عقرب کی یہ سب کچھ آسمان دنیا کی زینت بنے گا۔ اور جو کچھ ابھی مزید تحقیق کے دائرہ میں آئے گا وہ بھی آسمان دنیا تک ہی محدود ہوگا۔ باقی چھ آسمان اس آسمان دنیا سے ماوراء اور ان تک دسترس انسان کی طاقت سے باہر ہے۔ ان تک رسائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کی قدرت کاملہ کی وجہ سے ہوئی۔ اور وحی کے ذریعہ ہی ہمیں سات آسمانوں، ان کی جسامت اور ان میں بلندی کا علم ہوا ہے۔ آج کا ہیئت دان بھی جب کائنات کی وسعت کا خیال کرے ورطہ حیرت میں پھنس جاتا ہے تو دبی زبان سے اس کے منہ سے ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں جن سے اس علم وحی کی تائید ہوتی ہے اور وہ برملا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ اس لامحدود کائنات کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ جتنی طاقتور دوربینیں وہ ایجاد کرتے ہیں۔ کائنات اس کے سامنے اور بھی زیادہ وسیع ہوتی جاتی ہے۔ [ ١١] تشریح کے لئے دیکھئے سورۃ نحل کی آیت نمبر ١٥ کا حاشیہ نمبر ١٥ اور سورۃ انبیاء کا آیت نمبر ٣١ کا حاشیہ نمبر ٢٧ [ ١٢] جدید تحقیق کے مطابق جانداروں کی دس لاکھ انواع کا علم انسان کو حاصل ہوچکا ہے۔ اور اسی طرح دو لاکھ کے لگ بھگ نباتات کی انواع کا۔ جانداروں کی طرح نباتات، پودوں اور درختوں میں نر اور مادہ موجود ہوتے ہیں۔ اور ان معاملات میں جتنی بھی تحقیق ہورہی ہے۔ زیادہ سے زیادہ عجائبات قدرت یا اللہ کی نشانیاں انسان کے علم میں آرہی ہیں۔