ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
خشکی اور سمندر میں فساد ظاہر ہوگیا، اس کی وجہ سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمایا، تاکہ وہ انھیں اس کا کچھ مزہ چکھائے جو انھوں نے کیا ہے، تاکہ وہ باز آجائیں۔
[٤٧]فساد فی الارض کا اصل سبب:۔ یہاں بر و بحر سے مراد پورا مشرق وسطی بھی ہوسکتا ہے جو ان دنوں روم اور فارس کی جنگوں کی وجہ سے ظلم اور فساد کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ اور عرب کا علاقہ بھی۔ کیونکہ اکثر عربی قبائل کا پیشہ ہی مار دھاڑ، لوٹ کھسوٹ اور قتل غارت تھا۔ اور اس فساد سے محفوظ اگر کوئی جگہ تھی تو وہ صرف حرم مکہ کی حدود تھیں۔ اور اس ظلم و فساد اور طغیانی کی اصل وجہ یہی تھی کہ وہ لوگ نہ بعث بعدالموت کے قائل تھے اور نہ اللہ کے حضور پیش ہو کر اپنے اعمال کی جواب دہی اور جزاء و سزا کے۔ لہٰذا ہر شخص اپنے ذاتی اور دنیوی مفادات کی خاطر دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے لئے ہر وقت مستعد رہتا تھا اور نتیجتاً یہ سرزمین ظلم و جور سے بھر گئی تھی۔ [ ٤٨] یعنی یہ فساد ان کی اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے ظہور پذیر ہوا تھا۔ اور یہ ان کے اعمال کا بدلہ تھا۔ بلکہ اللہ کی طرف سے تھوڑا سا بدلہ تھا۔ اور اس تھوڑے سے بدلہ سے عام لوگ سخت پریشان حال تھے اور ان کے لئے زندگی اجیرن بن گئی تھی۔ اور یہ تھوڑی سی سزا اللہ نے انھیں اس لئے دی کہ شاید اب بھی وہ غور کرکے اس ظلم و فساد کی اصل وجہ تلاش کرلیں۔ اور اصل دین فطرت کی طرف لوٹ آئیں۔ آخرت کی جوابدہی سے ڈر جائیں اور اللہ کے فرمانبردار بن جائیں۔