سورة الروم - آیت 37

أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ رزق فراخ کردیتا ہے جس کے لیے چاہتا ہے اور تنگ کردیتا ہے، بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں جو ایمان رکھتے ہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤١]رزق کی کمی بیشی میں اللہ کی مصلحتیں:۔ یعنی رزق کی فراخی اور تنگی تو خالصتاً اللہ کے ہاتھ میں ہے جسے چاہے وہ زیادہ دے اور جسے چاہے کم دے اور اس رزق کی کمی و بیشی میں بھی اس کی کئی مصلحتیں ہوتی ہیں (تفصیل کے لئے دیکھئے سورۃ عنکبوت کی آیت نمبر ٦٢ کا حاشیہ) لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ رزق کی کمی بیشی کی بنا پر انسان اپنے اخلاق ہی بگاڑ لے۔ خوشحالی کا دور آئے تو پھولا نہ سمائے اور کسی کو حتیٰ کہ اللہ کو بھی خاطر میں نہ لائے اور تنگی کا دور آئے تو اللہ کو ہی اپنے شکووں کا ہدف بنالے اور اس کی رحمت سے مایوس ہوجائے۔ بلکہ صحیح طرز عمل یہ ہے کہ رزق کی کمی بیشی سے اللہ اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے اور کامیاب وہ انسان ہے جو ہر حال میں اخلاق فاضلہ کا مظاہرہ کرے۔ خوشحالی آئے تو اللہ کا شکر ادا کرے اور مزید سرنگوں ہوجائے اور تنگی کا وقت آئے تو صبر و تحمل سے کام رکھے اور اللہ کی رحمت کا امیدوار ہے۔ یہ اخلاق فاضلہ بذات خود اللہ کی ایسی نعمت ہے جو نہ کسی کافر و مشرک کو میسر آسکتی ہے اور نہ کسی دہریئے کو، یہ صرف اسے میسر آتی جو صرف اللہ پر ہی توکل رکھتا ہو۔