وَمِنْ آيَاتِهِ يُرِيكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَيُحْيِي بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ وہ تمھیں خوف اور طمع کے لیے بجلی دکھاتا ہے اور آسمان سے پانی اتارتا ہے، پھر زمین کو اس کے ساتھ اس کے مردہ ہونے کے بعد زندہ کردیتا ہے۔ بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں جو سمجھتے ہیں۔
[٢١] بجلی اور بارش دونوں میں خوف اور امید یا فائدہ کے پہلو موجود ہیں۔ بجلی کی کڑک اور چمک سے جہاں یہ خطرہ ہوتا ہے کہیں گر کر تباہی نہ مچائے۔ وہاں اس سے اندھیرے میں نظر بھی آنے لگتا ہے نیز بجلی کی کڑک اور چمک عموماً زیادہ بارش ہونے کی علامت بھی ہوتی ہے۔ اور بارش کے باعث رحمت میں تو کسی کو شک نہیں تاہم اگر بارش ضرورت سے زیادہ ہوجائے تو یا سیلاب کی صورت اختیار کرلے تو اس سے کئی طرح کے نقصان بھی پہنچ سکتے ہیں۔ [ ٢٢]بارش کےعوامل میں اللہ کی نشانیاں :۔ زمین پر بسنے والی تمام مخلوق کا انحصار زمین کی پیداوار پر ہے۔ اللہ نے زمین پر بارش برسا کر زمین کو زندہ کیا تو گویا اس نے تمام مخلوق کو زندہ کیا۔ اب اس بارش کے برسنے میں جو عوامل کام کرتے ہیں۔ سورج کی حرارت سے سطح سمندر سے بخارات کا اٹھنا، ہواؤں کا رخ، پہاڑوں کا رخ اور ٹھنڈے علاقوں کی موجودگی، اور بارش کے بعد زمین کی قوت روئیدگی گویا سورج، ہوائیں، پانی، حرارت، برودت اور زمین کے اندر قوت روئیدگی۔ یہ سب چیزیں ایک مربوط نظام کے تحت کام کریں تو تب جا کر انسان کو اور دوسری مخلوق کو روزی میسر ہوتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان چیزوں کو اور ان چیزوں کے درمیان نظم و ضبط کو اللہ کے سوا کسی اور الٰہ نے قائم کیا ہے؟ یا مادہ پرستوں کے خیالات کے مطابق یہ مادہ اور طبعی قوانین کا ہی کھیل ہے؟ اگر یہی بات ہے تو ایک مخصوص مقام پر ایک مخصوص موسم میں ایک سال تو خوب بارشیں ہوجاتی ہیں اور اگلا سال بالکل خشک کیوں گزر جاتا ہے؟ اس آیت سے صرف یہی معلوم نہیں ہوتا کہ روزی کا یہ نظام قائم کرنے والی ذات صرف ایک ہی ہستی ہوسکتی ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ حکیم مطلق بھی ہے اور مختار مطلق بھی۔