يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ
وہ دنیا کی زندگی میں سے ظاہر کو جانتے ہیں اور وہ آخرت سے، وہی غافل ہیں۔
[٣] اس کے دو مطلب ہیں۔ ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس آیت کا یہی مطلب ہے کہ ظاہر میں لوگوں کی نظر صرف ظاہری اسباب پر ہوتی ہے۔ اور انھیں اسباب کو دیکھ کر وہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں مگر اس کائنات میں ظاہری اسباب کے علاوہ بے شمار باطنی اسباب بھی موجود ہیں۔ جنہیں صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ اور ہر کام کا انجام تو صرف اللہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ بسا اوقات ظاہری اسباب کے بالکل الٹ نتیجہ برآمد ہوتا ہے اور یہ ایسی بات ہے جو عام لوگوں کے علم میں نہیں آسکتی۔ اور اگر اس آیت کو عام معنوں پر محمول کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ عام لوگوں کی نظر بس دنیا کے مال و اسباب پر ہی ہوتی ہے اور اسی پر وہ فریفتہ و مفتون ہوتے ہیں۔ وہ اس انجام سے قطعاً غافل ہوتے ہیں کہ انھیں مر کر اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے جہاں ان کے اعمال کا محاسبہ بھی ہوگا پھر اس کے مطابق انھیں سزا بھی ملنے والی ہے۔