سورة العنكبوت - آیت 48

وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ ۖ إِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور تو اس سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتا تھا اور نہ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتا تھا، اس وقت باطل والے لوگ ضرور شک کرتے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٨٠] آپ کے امتی ہونے کی مصلحت:۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو جھٹلانے یا اسے کم از کم مشکوک بنانے کے لئے قریش نے جو باتیں اختراع کی تھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہاس شخص نے سابقہ آسمانی کتابوں سے فیض حاصل کیا ہے اور اس کی بنیاد یہ تھی کہ آپ کی پیش کردہ کتاب یعنی قرآن کے بہت سے مضامین تورات سے ملتے جلتے تھے اور بعض منصف اہل کتاب اسی بات کی تصدیق بھی کردیتے ہیں۔ اس آیت میں ان کے اسی اعتراض کا جواب دیا گیا ہے کہ آپ نبوت سے پیشتر نہ تو کوئی کتاب پڑھ سکتے تھے کہ اس کے مطالعہ سے آپ کو ایسی معلومات حاصل ہوں اور نہ ہی لکھ سکتے تھے کہ علمائے اہل کتاب سے سن کر اسے نوٹ کرتے جائیں اور بعد میں اپنی طرف سے پیش کردیں۔ ہاں ان میں سے کوئی بھی صورت ہوتی تو ان کافروں کے شک و شبہ کی کچھ نہ کچھ بنیاد بن سکتی تھیں۔ لیکن جب یہ دونوں صورتیں موجود نہیں تو پھر ان لوگوں کا آپ کی رسالت سے انکار، تعصب، ضد اور ہٹ دھرمی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ مِنْ قَبْلِہِ سے بعض مسلمانوں نے اس بات پر استشہاد کیا ہے کہ نبوت سے پیشتر تو آپ فی الواقع لکھ پڑھ نہیں سکتے تھے، لیکن نبوت کے بعد آپ نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ اس اختراع کی بنیاد ان مسلمانوں کی آپ سے فرط عقیدت ہے۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ جو رسول سارے جہاں کے لئے رسول اور معلم بنا کر بھیجا گیا تھا کیسے ممکن ہے کہ وہ لکھا پڑھا نہ ہو۔ بالفاظ دیگر وہ نبی کی ذات سے لکھا پڑھا نہ ہونے کے نقص کو دور کرنا چاہتے ہیں۔ پھر ان لوگوں کے اس دعویٰ میں موجودہ دور کے مخالفین اسلام اور مستشرق محققین بھی شامل ہوگئے۔ کیونکہ یہ دعویٰ ان کے حق میں مفید تھا۔ کیاآپ نے بعد میں لکھنا پڑھنا سیکھ لیاتھا؟عقیدت مند مسلمانوں کے اس دعویٰ کے جذبہ کی ہم قدر کرتے ہیں لیکن ہمیں افسوس ہے کہ ان نادان دوستوں کا یہ دعویٰ دانا دشمنوں کے کام آرہا ہے۔ اب ہم اس دعویٰ کی تردید دو طرح سے کریں گے ایک عقلی لحاظ سے اور دوسرے تاریخی لحاظ سے۔ عقلی لحاظ سے ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ اگر ایک شخص ان پڑھ ہو کر سارے جہان کا معلم بنے تو یہ زیادہ حیران کن بات اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے یا ایک شخص بہت عالم فاضل اور پڑھا لکھا ہو کر معلم بنے؟ ظاہر ہے کہ پہلی صورت کو ہی معجزہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ پھر اس سے وہ تمام شکوک و شبہات بھی دور ہوجاتے ہیں جو اس دور کے مخالفین اسلام نے پیغمبر اسلام پر وارد کئے تھے یا اس دور کے مخالفین اسلام کر رہے تھے۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ قرآن نے دو آیات میں آپ کو مدح کے طور پر امی کے لقب سے نوازا ہے (٧: ١٥٧، ١٥٨) اور سورۃ جمعہ میں فرمایا : وہی تو ہے جس نے امی لوگوں میں سے ہی ایک فرد کو رسول بنا کر بھیجا (٦٢: ٢) قرآن کے انداز بیان سے بھی واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ امی کا لقب آپ کے لئے مایہ صد افتخار ہے۔ اور تاریخی لحاظ سے یہ دعویٰ اس لئے غلط ہے کہ حدیبیہ کا صلح نامہ ٦ ھ میں لکھا گیا تھا۔ لکھنے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے اور لکھانے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھوایا تو قریشیوں کے سفیر سہیل بن عمرو نے یہ اعتراض کیا کہ اس کے بجائے باسمک اللھم لکھو۔ اس کے بعد آپ نے لکھوایا من محمد رسول اللہ اس پر اس نے یہ اعتراض کیا کہ من محمد بن عبداللہ لکھو۔ کیونکہ اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول مان لیں تو پھر جھگڑا ہی کا ہے کا ہے؟ پھر جب سفیر سہیل بن عمرو نے اپنی بات پر اصرار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ یہ الفاظ مٹا کر قریشی سفیر کی مرضی کے مطابق لکھ دو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میرا تو ضمیر یہ گوارا نہیں کرتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لفظ اپنے ہاتھوں سے مٹا دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا اچھا بتلاؤ وہ لفظ کون سا ہے؟ اور جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بتلایا تو آپ نے خود اسے مٹا دیا۔ (بخاری۔ کتاب الشروط۔ باب الشروط فی الجہاد والمصالحة) یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب آپ کو نبوت عطا ہوئے ١٩ سال گزر چکے تھے اور اس وقت آپ کی عمر ٥٩ سال ہوچکی تھی۔ اور اس واقعہ کے چار پانچ سال بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوجاتی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھنا پڑھنا کب سیکھا تھا ؟ اور دوسرا ثبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی زبانی یہ اعتراف ہے کہ : ’’ہم امی لوگ ہیں، لکھنا اور حساب کرنا نہیں جانتے (قمری) مہینہ اتنا بھی ہوتا ہے اور اتنا بھی، پھر آپ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں بلند کرکے بتلایا کہ کبھی تیس دن کا ہوتا ہے اور کبھی انتیس دن کا‘‘ (بخاری۔ کتاب الصوم۔ باب قول النبی لا نکتب و لا نحسب)