فَآمَنَ لَهُ لُوطٌ ۘ وَقَالَ إِنِّي مُهَاجِرٌ إِلَىٰ رَبِّي ۖ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
تو لوط اس پر ایمان لے آیا اور اس نے کہا بے شک میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں، یقیناً وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
[ ٤٠]سیدنالوط کاایمان لانا اورہجرت کرنا:۔ حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چچازادہ بھائی تھے۔ دونوں ہی عراق کے شہر بابل کے رہنے والے تھے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ کے امتحان سے صحیح سلامت باہر نکل آئے۔ اس وقت حضرت لوط علیہ السلام نے ان پر ایمان لانے کا اعلان کیا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حضرت لوط علیہ السلام پہلے مشرک تھے۔ کیونکہ نبیوں کی نبوت سے پہلی زندگی بھی اللہ کی مہربانی سے ایسی نجاستوں سے پاک و صاف ہوتی ہے۔ انبیاء کے علاوہ اور بھی کئی ایسے آدمی ہوتے ہیں جو شرک سے بیزار قلب سلیم رکھتے ہیں مگر انھیں صحیح رہنمائی نہیں ملتی۔ دور نبوی میں بھی آپ کی نبوت سے پہلے ایسے چھ آدمی موجود تھے۔ [ ٤١] مفسرین کہتے ہیں کہ یہ ہجرت حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام دونوں نے مل کر کی تھی۔ اور یہ سفر ہجرت بابل سے فلسطین کی طرف تھا۔ اللہ کی حکمت اسی میں تھی کہ آپ وہاں چلے جائیں، اسی مقام پر حضرت لوط علیہ السلام کو بھی نبوت ملی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت لوط علیہ السلام کو سدوم کے علاقے کی طرف بھیج دیا۔