أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ
اور کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ کس طرح اللہ خلق کی ابتدا کرتا ہے، پھر اسے دھرائے گا، بے شک یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔
[ ٣١]رحم مادر میں انسان کی تخلیق :۔ اللہ تعالیٰ کے تخلیقی کارنامے لاتعداد ہیں۔ زمین پر بسنے والے جانداروں کی دس لاکھ انواع کا تاحال پتہ چل چکا ہے۔ آئندہ کا حال اللہ کو معلوم ہے۔ ان میں سے ہر نوع کی تخلیق جداگانہ ہے۔ اب مثلاً ہم ایک نوع انسان ہی کو لیتے ہیں اس لئے کہ اس کے متعلق زیادہ معلومات حاصل ہیں۔ اس کی ابتدا یوں ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے مٹی سے اس کا پتلا اپنے ہاتھ سے بنایا۔ اس وقت وہ مردہ تھا۔ اس میں روح پھونکی تو زندہ ہوگیا۔ پھر اس کی نسل توالد و تناسل سے چلی۔ انسان نے زمین سے حاصل ہونے والی غذائیں کھائیں یہ غذائیں مردہ اور بے جان تھیں۔ انھیں سے مرد میں منی بن گئی جس میں لاتعداد جرثومے ہوتے ہیں۔ یہی منی مادہ کے رحم میں پہنچی تو اس کے مادہ سے مل کر نطفہ بنی، نطفہ سے علقہ، علقہ سے مضغہ یعنی گوشت کا لوتھڑا بنی۔ اب تک یہ سب کچھ مردہ اور بے حرکت تھا۔ بعد میں اللہ نے اس لوتھڑے کو روح عطا کی تو یہ لوتھڑا جاندار اور متحرک بن گیا۔ اب انسان کی شکل و صورت کی باری آئی۔ رحم مادر میں اتنے خلیے (Cell) ہوتے ہیں جن کی تعداد صرف اللہ کو معلوم ہے۔ ان میں سے ہر ایک خلیہ اپنے ہی کام لگا ہوتا ہے نہ یہ اپنے راستے سے ہٹتا ہے کہ راستہ بھولتا ہے نہ کسی دوسرے خلیے کے کام میں دخل دیتا ہے۔ ناک کا خلیہ اسی جگہ پہنچے گا جہاں ناک کی جگہ ہے، آنکھ کا آنکھ کی جگہ، کان کا کان کی جگہ اور ایڑی کا ایڑی کی جگہ پر پہنچے گا۔ اور یہ خلیے براہ راست اپنے اپنے مقام پر پہنچ کر اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ تاآنکہ انسان کی ایک خاص شکل و صورت بن جاتی ہے اور رحم مادر میں یہ ایسا منضبط اور مضبوط نظام ہے جس میں تخلف نہیں ہوتا۔ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ کسی انسان کی ناک کا ایک نتھنا چھوٹا ہو، دوسرا بڑا ہو، یا ایک نتھنا لمبوترا ہو تو دوسرا چپٹا ہو۔ یہی حال دوسرے اعضا کا ہے۔ پھر ایک مقررہ مدت کے بعد انسان زندہ اور شکل و صورت والا بن کر رحم مادر سے باہر آجاتا ہے۔ گویا مردہ غذاؤں سے اللہ نے زندہ چیز بنا دیں۔ اور یہ عمل حیوانات اور نباتات اور انسان غرضیکہ تمام انواع میں ہمہ وقت جاری و ساری ہے۔ اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ توالد و تناسل کے ذریعہ پیدائش ہر نوع کے ابتدائی جاندار کی نسبت اللہ کے لئے زیادہ آسان ہے۔ نقش ثانی اول سےآسان :۔اب اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان زندہ تھا وہ مر گیا۔ اور مٹی میں مل گیا۔ اور قیامت کو وہی انسان دوبارہ اٹھا کھڑا کیا جائے گا۔ مٹی کے اندر جو تغیرات ہوں گے اور جس طرح انسان دوبارہ پیدا ہوگا یہ باتیں انسان کی تحقیق سے باہر ہیں۔ تاہم یہ ایک بدیہی حقیقت ہے جس کے لئے ضرورت نہیں کہ نقش ثانی کا بنانا نقش اول کی نسبت زیادہ آسان ہوتا ہے۔ اور دوسری عقلی دلیل یہ ہے کہ جو ہستی رحم مادر میں اس قدر منضبط اور مربوط نظام قائم کرکے مردہ اشیاء سے زندہ انسان نما کھڑا سکتی ہے وہ یقیناً مٹی میں بھی ملے ہوئے اجزا سے بھی ہر انسان کو دوبارہ پیدا کرسکتی ہے۔ اور یہ دوسری بار کی پیدائش اس کے لئے نسبتاً آسان چیز ہے۔