وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا اتَّبِعُوا سَبِيلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطَايَاكُمْ وَمَا هُم بِحَامِلِينَ مِنْ خَطَايَاهُم مِّن شَيْءٍ ۖ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ
اور جن لوگوں نے کفر کیا انھوں نے ان لوگوں سے کہا جو ایمان لائے کہ تم ہمارے راستے پر چلو اور لازم ہے کہ ہم تمھارے گناہ اٹھا لیں، حالانکہ وہ ہرگز ان کے گناہوں میں سے کچھ بھی اٹھانے والے نہیں، بے شک وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔
[ ٢٠] کافروں کامسلمانوں کوکہناکہ اگرتم واپس آجاؤ توہم قیامت کوتمہارا باراٹھالیں گے:۔ یہ بات مشرکین مکہ مسلمانوں سے اس لئے کہتے تھے کہ وہ خود آخرت کے قیام کے قائل ہی نہ تھے۔ نہ انھیں اس بات کا احساس تھا کہ آخرت میں ان سے باز پرس بھی ہونے والی ہے پھر انھیں اپنے اپنے گناہوں کا بار بھی اٹھانا پڑے گا۔ دوسری طرف انھیں اپنا دین مرغوب بھی تھا اور وہ اس مشرکانہ دین کو برحق بھی سمجھتے تھے۔ اسی لئے وہ مسلمانوں سے کہتے تھے کہ اگر تم واپس ہمارے دین میں آجاؤ۔ تو تمہارے خیال کے مطابق تمہارے اس ارتداد کا گناہ قیامت کو ہم اٹھائیں گے۔ گویا اس طرح کے سمجھوتہ میں انھیں فائدہ ہی فائدہ نظر آتا تھا۔ یعنی ان کا مطالبہ ارتداد تو ابھی پورا ہوجائے۔ اور اس کے معاوضہ کا جو وعدہ کرتے تھے اس پر وہ ایمان نہیں رکھتے تھے۔ [ ٢١] اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ کوئی شخص دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہ اٹھاتا ہے نہ اٹھا سکتا ہے۔ لہٰذا یہ لوگ جھوٹ بکتے ہیں۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب یہ جہنم کا عذاب دیکھیں گے۔ اور انھیں اپنا انجام معلوم ہوجائے گا۔ تو اس وقت کبھی نہ بکیں گے کہ فلاں شخص ہمارے کہنے پر اسلام سے پھر گیا تھا لہٰذا اسے تو جنت میں بھیج دو اور اس کا عذاب بھی میرے عذاب میں اضافہ کردو۔ اس لحاظ سے بھی یہ جھوٹ بک رہے ہیں۔