وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ فَإِذَا أُوذِيَ فِي اللَّهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللَّهِ وَلَئِن جَاءَ نَصْرٌ مِّن رَّبِّكَ لَيَقُولُنَّ إِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ ۚ أَوَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِمَا فِي صُدُورِ الْعَالَمِينَ
اور لوگوں میں سے بعض وہ ہے جو کہتا ہے ہم اللہ پر ایمان لائے، پھر جب اسے اللہ (کے معاملہ) میں تکلیف دی جائے تو لوگوں کے ستانے کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھ لیتا ہے اور یقیناً اگر تیرے رب کی طرف سے کوئی مدد آجائے تو یقیناً ضرور کہیں گے ہم تو تمھارے ساتھ تھے، اور کیا اللہ اسے زیادہ جاننے والا نہیں جو سارے جہانوں کے سینوں میں ہے۔
[ ١٥] یعنی وہ ہوتا تو کمزور ایمان والا ہے مگر اپنے آپ کو راسخ العقیدہ مسلمانوں میں شامل سمجھتا ہے۔ اور انہی کی طرح اپنے ایمان کا اقرار اور دعویٰ کرتا ہے۔ [١٦] اسلام لانے والوں کا بھی اسلام لانے کے ساتھ ہی امتحان شروع ہوجاتا ہے اور مسلمانوں کو کفار کی جانب سے طرح طرح کے دکھ اور مصائب برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ یہ دراصل حق و باطل کی سرد جنگ ہوتی ہے۔ اور ابتداءً چونکہ حق کمزور اور باطل اپنے جوبن پر ہوتا ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو کئی طرح کی مشکلات اور پریشانیاں لاحق ہوجاتی ہیں۔ کمزور ایمان والے اس صورت حال کو برداشت نہیں کرسکتے اور اسب سے اپنی جان چھڑانا چاہتے ہیں اور اپنے دعویٰ ایمان سے دستبردار ہونے لگتے ہیں یا کم از کم عملی طور پر اپنے دعویٰ کی تردید کردیتے ہیں۔ [ ١٧] اور اگر سردھڑ کی بازی لگانے کے بعد راسخ الایمان مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ فتح و نصرت سے بہرہ ور کر دے تو ایسے لوگ فتح کے ثمرات سے حصہ بٹانے کے لئے فوراً آموجود ہوں گے اور کہیں گے کہ ہم بھی تو تمہارے ساتھ اور تمہارے اسلام بھائی ہیں۔ [١٨] یعنی اللہ تعالیٰ ان کے زبانی دعوؤں کی حقیقت کو خوب جانتا ہے کہ وہ کون کون سے مفادات کی خاطر یہ ایمان لانے کے دعوے کرتے ہیں۔ اور تکلیفوں سے بچاؤ کے کون کون سے طریقے سوچتے رہتے ہیں۔