سورة القصص - آیت 83

تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا ۚ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

یہ آخری گھر، ہم اسے ان لوگوں کے لیے بناتے ہیں جو نہ زمین میں کسی طرح اونچا ہونے کا ارادہ کرتے ہیں اور نہ کسی فساد کا اور اچھا انجام متقی لوگوں کے لیے ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١١٢] عَلَوْا بمعنی سربلند، متکبر، مغرور یعنی وہ بڑا بن کر نہیں رہتے نہ دوسروں کو دبا کر رکھتے ہیں بلکہ متواضع اور منکسر المزاج بن کر اور اللہ کے فرمانبردار بن کر رہتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے آخرت کا گھر مختص ہے۔ سربلندی اور ناموری چاہنے والوں اور متکبر بن کر رہنے والوں کے لئے ہرگز نہیں ہے۔ [١١٣] فساد کا مفہوم۔۔فساد فی الارض کیاہے؟فساد کے لفظ کا اطلاق عموماً چوری، ڈاکہ، غصب، غبن، لوٹ مار اور قتل و غارت کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ شرعی اصطلاح فساد فی الارض کے معنوں میں اس سے بہت زیادہ وسعت ہے یعنی وہ کام جس میں انسان اپنے حق سے تجاوز کر رہا ہو یا دوسرے کے حق پامال کررہا ہو وہ فساد فی الارض کے ضمن میں آئے گا۔ قارون کے قصہ میں اللہ نے قارون کو فساد فی الارض کا مجرم قرار دیا ہے۔ حالانکہ وہ نہ چوری کرتا تھا نہ لوٹ مار، نہ قتل و غارت ان میں سے کوئی کام بھی نہیں کرتا تھا۔ اس کا فساد فی الارض یہ تھا کہ اس کے مال میں دوسروں کا حق شامل تھا وہ اسے ادا نہیں کر رہا تھا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص دھوکے سے یا جھوٹی قسم کھا کر اپنا مال بیچ رہا ہے۔ تو اگرچہ معاشرہ اسے فسادی نہیں سمجھتا لیکن شرعی لحاظ سے وہ فسادی ہے۔ کیونکہ اس نے فریب یا جھوٹی قسم کے ذریعہ چیز کی اصل قیمت سے زیادہ وصول کرکے خریدار کو نقصان پہنچایا یا اس کا حق غصب کیا ہے گویا فساد سے مراد انسانی زندگی کے نظام کا وہ بگاڑ ہے جو حق سے تجاوز کرنے کے نتیجہ میں لازماً رونما ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر احکام الٰہی سے تجاوز کرتے ہوئے انسان جو کچھ بھی کرتا ہے وہ فساد ہی فساد ہے اور سب سے بڑا فساد اللہ کی حق تلفی یا شرک ہے۔