وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ وَقَالُوا لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ لَا نَبْتَغِي الْجَاهِلِينَ
اور جب وہ لغو بات سنتے ہیں تو اس سے کنارہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمھارے لیے تمھارے اعمال۔ سلام ہے تم پر، ہم جاہلوں کو نہیں چاہتے۔
[٧٥]لغوسے کنارہ کرنے والے نومسلم عیسائی اور ابوجہل :۔ ایسے مسلمانوں کی تیسری صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ لغو کاموں یا بے ہودہ باتوں میں نہ صرف یہ کہ ان میں شامل نہیں ہوتے بلکہ ایسے کاموں سے کنارہ کش رہتے ہیں۔ اور اگر ایسے لوگوں سے سابقہ پڑجائے تو ان سے تعرض نہیں کرتے بلکہ سلام کہہ کر گزر جاتے ہیں جس سے ان کی مراد ایسے کاموں سے بیزاری کا اظہار ہوتا ہے۔ سیرت کی کئی کتابوں میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ ہجرت حبشہ کے بعد جب حبشہ کے لوگ اسلام اور اس کی دعوت سے متعارف ہوئے تو وہاں سے بیس آدمی، جو عیسائی تھے اس غرض کے لئے مکہ آئے کہ یہ تحقیق کریں کہ پیغمبر اسلام کیسے شخص آئے ہیں۔ جب وہ لوگ آپ سے ملے اور گفتگو شروع ہوئی تو آپ نے انھیں قرآن پڑھ کر سنایا جس سے وہ اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور بڑے پرزور طریقہ پر آپ کی تصدیق و تائید کی۔ جب مشرف بہ اسلام ہو کر حبشہ واپس جانے لگے تو ابو جہل اور اس کے ساتھیوں نے ان پر آوازے کسے کہ ایسے احمقوں کا قافلہ آج تک کسی نے نہ دیکھا ہوگا۔ جو ایک شخص کی تحقیق کرنے کے لئے آئے تھے۔ اور اب اس کے غلام بن کر اور اپنا دین چھوڑ کر جارہے ہیں۔ انہوں نے جواب میں کہا : ہماری طرف سے تم پر سلام ہے ہم تمہاری جہالت کا جواب جہالت سے نہیں دینا چاہتے۔ ہم میں اور تم میں جو جس حال پر ہے وہی کچھ اس کا حصہ ہے۔ ہم نے اپنے آپ کا بھلا چاہنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اسی کے متعلق یہ آیات نازل ہوئیں۔ (البدایہ والنہایہ ج ٣ ص ٨٢) ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص سے یہ توقع نہ ہو کہ ہدایت کی بات قبول کرلے گا بلکہ یہ خطرہ ہو کہ یہ الٹا چڑ جائے گا ایسے شخص کو سمجھانے کے بجائے اس سے کنارہ کرنا ہی بہتر ہے۔