سورة القصص - آیت 47

وَلَوْلَا أَن تُصِيبَهُم مُّصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ فَيَقُولُوا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ آيَاتِكَ وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور اگر یہ نہ ہوتا کہ انھیں اس کی وجہ سے کوئی مصیبت پہنچے گی جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجا تو کہیں گے اے ہمارے رب! تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیری آیات کی پیروی کرتے اور ایمان والوں میں سے ہوجاتے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٦٣]آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے دومقصد أتمام حجت اور رفع عذر:۔ ان لوگوں میں آپ کو رسول بنا کر بھیجنے کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اگر آپ کی بعثت سے پہلے ان پر ان کے اپنے شامت اعمال کی وجہ سے کوئی عذاب یا مصیبت آن پڑتی تو یہ کہہ سکتے تھے کہ ہم تو عرصہ دو ہزار سال سے صحیح حالات سے واقف ہی نہ تھے۔ یہ ممکن تھا کہ سزا دہی کے وقت یہ لوگ کہنے لگتے کہ ہمارے پاس کوئی پیغمبر تو بھیجا نہیں جو ہمیں ہماری غلطیوں پر کم از کم تنبیہ کردیتا اس طرح یکدم پکڑ کر عذاب میں دھر گھسیٹا۔ اور اگر اللہ ہماری طرف کوئی رسول بھیجتا جو ہمیں ہدایت کی راہ دکھلاتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ ہم اس رسول کی پیروی نہ کرتے اور دوسری موجود قوموں سے زیادہ ہدایت یافتہ نہ بن جاتے۔ گویا ان لوگوں کی طرف آپ کی بعثت کے دو مقصد تھے ایک اتمام حجت اور دوسرے ان لوگوں کے عذر یا اعتراض کو رفع کرنا یہی مضمون قرآن میں دیگر متعدد مقامات پر بھی مذکور ہے۔