وَلَٰكِنَّا أَنشَأْنَا قُرُونًا فَتَطَاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ ۚ وَمَا كُنتَ ثَاوِيًا فِي أَهْلِ مَدْيَنَ تَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا وَلَٰكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ
اور لیکن ہم نے کئی نسلیں پیدا کیں، پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی اور نہ تو اہل مدین میں رہنے والا تھا کہ ان کے سامنے ہماری آیات پڑھتا ہو اور لیکن ہم ہی بھیجنے والے ہیں۔
[٥٩] موسیٰ علیہ السلام کے عہد سے لے کر دور نبوی تک تقریباً دو ہزار سال کی مدت ہے اور اس عرصہ میں تقریباً چالیس نسلیں یکے بعد دیگرے پیدا ہوتی رہیں۔ مگر اس دوران ملک حجاز میں کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا تھا۔ دو ہزار سال کے بعد سب سے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم البتہ ان لوگوں (اہل حجاز) کی طرف مبعوث ہوئے۔ [٦٠] یعنی مدین کا باشندہ نہ ہونے کے باوجود آپ ان لوگوں کو حضرت شعیب علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حالات یوں بتلا رہے ہیں گویا اس وقت آپ وہاں مقیم تھے اور ان لوگوں کو ہماری آیات پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ اور ان واقعات کے صرف عینی شاہد ہی نہ تھے۔ بلکہ عملی طور پر بھی ان واقعات میں آپ کا عمل دخل تھا۔ اور یہ بات چونکہ ناممکن ہے تو اس سے صاف واضح ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے یہ حالات بذریعہ وحی بتلائے ہوں۔ اور یہی چیز آپ کی نبوت کی دلیل ہے۔