وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ مَا عَلِمْتُ لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرِي فَأَوْقِدْ لِي يَا هَامَانُ عَلَى الطِّينِ فَاجْعَل لِّي صَرْحًا لَّعَلِّي أَطَّلِعُ إِلَىٰ إِلَٰهِ مُوسَىٰ وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ مِنَ الْكَاذِبِينَ
اور فرعون نے کہا اے سردارو! میں نے اپنے سوا تمھارے لیے کوئی معبود نہیں جانا، تو اے ہامان! میرے لیے مٹی پر آگ جلا، پھر میرے لیے ایک اونچی عمارت بنا، تاکہ میں موسیٰ کے معبود کی طرف جھانکوں اور بے شک میں یقیناً اسے جھوٹوں میں سے گمان کرتا ہوں۔
[٤٩] فرعون کی خدائی کا دعویٰ اس حد تک تھا کہ اس نے ملک کے تمام وسائل معاش پر قبضہ کر رکھا تھا۔ دوسرے وہ اپنے قانونی اور سیاسی اختیارات میں کسی بالاتر ہستی کا قائل نہ تھا۔ ورنہ وہ دوسرے مشرکوں کی طرح کائنات کا خالق اللہ ہی کو سمجھتا تھا اور اللہ کے علاوہ دوسرے معبودوں کا بھی قائل تھا۔ چنانچہ خود اس کے درباریوں نے فرعون سے کہا تھا کہ ’’تو موسیٰ کو کھلی چھٹی دے دے گا کہ وہ اور اس کے پیرو کار تجھے اور تیرے معبودوں کو چھوڑ دیں گے‘‘ (٧: ١٢٧) فراعنہ مصر دراصل اپنے آپ کو سورج دیوتا کا اوتار سمجھتے تھے۔ اس لئے وہ اپنی رعایا سے اپنے مجسموں کی پوجا بھی کرواتے تھے۔ علاوہ ازیں ان لوگوں میں گائے بیل کی پرستش کا عام رواج تھا۔ [٥٠] اللہ تعالیٰ کی ہستی کےمتعلق انکشافات اور اس کا جواب:۔ یہ بات دراصل اس نے اپنی رعایا کو الو بنانے اور ان سے دعوت حق کے اثر کو زائل کرنے کے لئے کہی تھی۔ اور یہ بالکل ایسی ہی بات تھی جیسے چند برس پیشتر روس نے، جو ایک کمیونسٹ اور دہریت پسند ملک ہے، نے کہی تھی۔ اس نے اپنا ایک سپوتنک طیارہ چھوڑا جو چند لاکھ میل بلندی تک پہنچا تو واپسی پر ان لوگوں نے یہ دعویٰ کردیا کہ ہم اتنے لاکھ میل کی بلندی تک ہو آئے ہیں۔ مگر ہمیں مسلمانوں کا خدا کہیں نہیں ملا۔ یعنی ان احمقوں کا یہ خیال تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی ہستی موجود ہے تو یہی چند لاکھ میلوں کی بلندی پر ہی ہوسکتی ہے۔ اور اسی دلیل کو بھی انہوں نے لوگوں کو الو بنانے کے لئے ہی سائنٹفک دلیل کے طور پر پیش کیا۔ کیونکہ یہی لوگ جب کائنات کی وسعت کا حال بتلاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ سورج ہماری زمین سے ٩ کروڑ ٣٠ لاکھ میل دور ہے اور زمین اس کے گرد گردش کر رہی ہے۔ یہ اس سورج کا تیسرا سیارہ ہے اور سورج کے گرد نواں سیارہ پلوٹو گردش کرتا ہے جو سورج سے ٣ ارب ٦٨ کروڑ میل کے فاصلہ پر ہے۔ نیز یہ کہ اس کائنات میں ہمارے نظام شمسی میں سورج ایک ستارہ یا ثابت ہے اور کائنات میں ایسے ہزاروں ستارے ثوابت مشاہدہ کئے جاچکے ہیں۔ اور یہ ستارے یا سورج جسامت کے لحاظ سے ہمارے سورج سے بہت بڑے ہیں۔ ہمارے سورج سے بہت دور تقریباً ٤٠٠ کھرب کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک سورج موجود ہے جو ہمیں محض روشنی کا ایک چھوٹا سا نقطہ معلوم ہوتا ہے۔ اس کا نام الفاقنطورس (Alfa Centoaris) ہے۔ ایسے ہی دوسرے سورج اس سے دور ہیں۔ اسی طرح ایک ستارے کا نام قلب عقرب ہے (Antares) ہے۔ اگر اسے اٹھا کر ہمارے نظام شمسی میں رکھا جائے تو سورج سے مریخ تک کا تمام علاقہ اس میں پوری طرح سما جائے گا۔ جبکہ مریخ کا سورج سے فاصلہ ١٤ کروڑ ١٥ لاکھ میل دور ہے۔ گویا قلب عقرب کا قطر ٢٨ کروڑ ٣٠ لاکھ میل کے لگ بھگ ہے۔ پھر جب کائنات میں ہر سو بکھرے سیاروں کے فاصلے کھربوں میل کے عدد سے بھی تجاوز کر گئے تو ہیئت دانوں نے نوری سال کی اصطلاح ایجاد کی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ روشنی ایک لاکھ ٨٦ ہزارمیل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ اس لحاظ سے ہماری زمین سے سورج کا فاصلہ جو حقیقتاً ٩ کروڑ ٣٠ میل ہے۔ روشنی کا یہ سفر ٨ منٹ کا سفر ہے۔ گویا سورج ہم سے ٨ نوری منٹ کے فاصلہ پر ہے۔ اب کائنات میں ایسے سیارے بھی موجود ہیں جو ایک دوسرے سے ہزارہا بلکہ لاکھوں نوری سالوں کے فاصلہ پر ہیں۔ فرعون کا ہامان کو ایک اونچامحل تعمیر کرنے کی ہدایت کرنا:۔ یہ تو ہے کائنات کی وسعت کا وہ مطالعہ جو انسان کرچکا ہے اور جو ابھی انسان کے علم میں نہیں آسکا وہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اب کیا وہ ہستی جو ان ساری چیزوں کی خالق اور سب سے اوپر ہے کیا یہ احمق اسے چند لاکھ میلوں کی بلندی پر پالیں گے؟ نیز وہ سمجھ رہے ہیں جیسے وہ کوئی مادی جسم ہے۔ جو ان کی گرفت میں آسکتا ہے۔ ﴿قٰاتَلَہُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ ﴾ اس سے بڑی حماقت ان روسی داناؤں نے یہ کی کہ اس سائنٹفک تحقیق کو اپنے سکولوں میں پڑھانا شروع کردیا۔ تو ایک لڑکی کے منہ سے بے ساختہ یہ جملہ نکل گیا کہ جہاں تک یہ سپوتنک میزائل پہنچا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس سے بہت اوپر تھا۔ فرعون نے بھی ہامان سے ایسی ہی بات کہی تھی جس سے لوگوں کو اللہ کی ہستی سے شک میں مبتلا کردے۔ ورنہ عملاً نہ ہامان نے کوئی ایسا اونچا محل یا مینارہ بنایا تھا اور نہ ہی فرعون کا یہ مقصد تھا۔