قَالَ رَبِّ بِمَا أَنْعَمْتَ عَلَيَّ فَلَنْ أَكُونَ ظَهِيرًا لِّلْمُجْرِمِينَ
کہا اے میرے رب! اس وجہ سے کہ تو نے مجھ پر انعام کیا، تو میں کبھی بھی مجرموں کا مددگار نہیں بنوں گا۔
[٢٧] موسیٰ علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کا انعام یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی خطا پر پردہ ڈال دیا۔ کہ حکومتی اہلکاروں میں سے کسی کو بھی یہ پتا نہ چل سکا۔ کہ اس مقتول قبطی کا قاتل کون ہے؟ اللہ تعالیٰ کے اس انعام کے شکریہ کے طور پر موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا کہ آئندہ وہ کسی مجرم کی حمایت یا مدد نہیں کریں گے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے پہلے کون سے مجرم کی حمایت کی تھی جو اب اللہ سے ایسا عہد کررہے ہیں۔ اس کا جواب بعض لوگوں نے یہ دیا ہے کہ موسیٰ کی اس سے مراد وہ سبطی تھا جو آپ سے یہ جرم کروانے کا باعث بنا تھا۔ ممکن ہے اس کا بھی کچھ قصور ہو۔ لیکن آپ نے بلاتحقیق اس سبطی کی حمایت میں قبطی کو گھونسا رسید کرکے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ لیکن ہمارے خیال میں اس کی وہی توجیہ درست ہے جسے اکثر مفسرین نے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے یہ عہد کیا تھا کہ آئندہ وہ اس مجرم اور کافرانہ حکومت کی امداد و اعانت سے مکمل طور پر دستبردار ہوجائیں گے۔ اور یہی وہ عہد تھا جسے انہوں نے بعد میں ساری عمر نباہا تھا۔ یعنی اس واقعہ کے بعد انہوں نے شاہی خاندان کا فرد رہنے سے بیزاری کا اعلان کردیا تھا۔