وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِّنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ
اور جب ان پر بات واقع ہوجائے گی تو ہم ان کے لیے زمین سے ایک جانور نکالیں گے، جو ان سے کلام کرے گا کہ یقیناً فلاں فلاں لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں رکھتے تھے۔
[٨٧] اس آیت میں﴿ دَابَّةً﴾ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس کا مادہ د ب ب ہے اور دبّ بمعنی عام رفتار ( مشی) ہلکی یا سست رفتار سے چلنا ہے۔ اور دابہ ہر اس جاندار کو کہتے ہیں جو ہلکی چال چلتا ہو۔ خواہ وہ پیٹ کے بل چلے جیسے سانپ اور چھپکلی وغیرہ یا خواہ دو پاؤں پر چلے جیسے انسان اور بندروں کی بعض اقسام یا چار پاؤں پر چلے جیسے وحشی جانور اور چوپائے وغیرہ۔ نیز مذکر و مؤنث کے لئے اس کا یکساں استعمال ہوتا ہے۔ اور قرآن میں یہ لفظ دیمک کے لئے بھی آیا ہے۔ جس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد ان کی لاٹھی کو چاٹ کھایا تھا اور وہ ٹوٹ گئی تھی۔ (٣٨: ١٤) اس آیت میں جس دابة کا ذکر ہے۔ معلوم تو یہی ہوتا ہے کہ وہ انسان کی شکل کا یا اس سے ملتا جلتا ہوگا۔ تکلہم کا لفظ اس قیاس کی تائید کرتا ہے۔ تاہم یہ ضروری بھی نہیں۔ جس طرح اس دابة کا خروج خرق عادت ہوگا اسی طرح اس کا لوگوں سے کلام کرنا بھی خرق عادت ہوسکتا ہے۔ بہرحال یہ یقینی بات ہے کہ اس کا خروج علامات قرب قیامت میں سے ایک علامت ہے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے : ١۔ دابۃ الارض کی حقیقت:۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ تین باتیں جب ظاہر ہوجائیں تو اس وقت کسی کو ایمان لانے کا کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ الا یہ کہ وہ پہلے ایمان لاچکا ہو اور نیک اعمال کرتا رہا ہو۔ ایک سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دوسرے دجال کا نکلنا اور تیسرے دابۃ الارض کا خروج‘‘ ( مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب بیان الزمن الذی لایقبل فیه الایمان ) ٢۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دابة الارض نکلے گا تو اس کے پاس سلیمان کی مہر اور موسیٰ کا عصا ہوگا۔ پھر وہ ( عصائے موسیٰ سے) مومن کے منہ پر لکیر کھینچ دے گا جس سے وہ چمک اٹھے گا اور کافر کی ناک پر( سلیمان کی انگوٹھی سے) مہر لگا دے گا۔ یہاں تک کہ سب لوگ ایک خوان پر جمع ہوں گے تو وہ یہ کہے گا کہ یہ مومن ہے اور یہ کافر ہے۔(یعنی مومن اور کافر ممتاز ہوجائیں گے) ( ترمذی۔ ابو اب التفسیر) ٣۔ حضرت حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم پر برآمد ہوئے جبکہ ہم گفتگو میں مشغول تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ’’کیا باتیں کر رہے تھے؟‘‘ ہم نے عرض کیا : قیامت کا ذکر کرتے تھے : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی۔ جب تک تم اس سے پہلے دس نشانیاں نہ دیکھ لو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نشانیاں بتلائیں۔ دھواں، دجال، دابۃ الارض، سورج کا مغرب سے نکلنا، نزول عیسیٰ ابن مریم، یاجوج ماجوج کا خروج۔ تین مقامات پر زمین کاخسف مشرق میں، مغرب میں، جزیرہ عرب میں۔ اور ان نشانیوں کے بعد ایک آگ پیدا ہوگی جو لوگوں کو یمن سے نکال کر ہانکتی ہوئی ان کے محشر ( سرزمین شام) کی طرف لے جائے گی‘‘ ( مسلم۔ کتاب الفتن واشراط الساعة ) بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت سے پہلے صفا پہاڑی پھٹے گی اس میں سے ایک جانور نکلے گا جو لوگوں سے باتیں کرے گا کہ اب قیامت نزدیک نزدیک ہے اور سچے ایمان والوں اور چھپے منکروں کو نشان دے کر جدا کردے گا۔ دابۃ الارض سے متعلق بہت سے رطب و یابس اقوال و روایات بعض تفاسیر میں درج ہیں۔ مگر معتبر روایات سے تقریباً اتنا ہی ثابت ہے جو اوپر درج ہے۔