سورة النمل - آیت 66

بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ ۚ بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِّنْهَا ۖ بَلْ هُم مِّنْهَا عَمُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بلکہ ان کا علم آخرت کے بارے میں ختم ہوگیا ہے، بلکہ وہ اس کے بارے میں شک میں ہیں، بلکہ وہ اس سے اندھے ہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧٣] یعنی کوئی انسان خواہ کتنے ہی عقل کے گھوڑے دوڑائے یہ معلوم نہیں کرسکتا کہ قیامت کب قائم ہوگی۔ نہ ہی روز آخرت کی حقیقت معلوم کرسکتا ہے۔ سوائے اس کے کہ وہ وحی الٰہی پر ایمان لے آئے۔ اس صورت میں اسے آخرت اور اس کے احوال کے متعلق تو یقین حاصل ہوجاتا ہے۔ مگر قیامت کے وقت کا علم پھر بھی حاصل نہیں ہوسکتا۔ اور ان لوگوں کی حالت یہ ہے کہ پیغمبر کی دعوت نے انھیں اس شک میں مبتلا ضرور کردیا ہے اور وہ روز آخرت سے انکار کے باوجود یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ممکن ہے کہ پیغمبر سچ ہی کہہ رہا ہو۔ اس کے باوجود ان لوگوں نے اسی بات کو ترجیح دی کہ اس معاملہ پر غورو فکر کرنا چھوڑ دیا جائے اور ان دلائل وشواہد سے بالکل آنکھیں بند کرلیں۔ جن میں غور و تامل کرنے سے ان کا شک رفع ہوسکتا ہے۔