سورة النمل - آیت 60

أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَّا كَانَ لَكُمْ أَن تُنبِتُوا شَجَرَهَا ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

(کیا وہ شریک بہتر ہیں) یا وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمھارے لیے آسمان سے پانی اتارا، پھر ہم نے اس کے ساتھ رونق والے باغات اگائے، تمھارے بس میں نہ تھا کہ ان کے درخت اگاتے، کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور) معبود ہے؟ بلکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو راستے سے ہٹ رہے ہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٦٠] اللہ کی ربوبیت عامہ:۔ اس آیت اور اس سے آگے تین چار آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدت کاملہ اور رحمت اور ربوبیت عامہ اور توحید پر چند ایسے دلائل کا انبار لگا دیا ہے جن میں سے اکثر دلائل کے مشرکین مکہ بھی معترف تھے۔ مثلاً سب سے پہلی دلیل تو یہی ہے کہ آسمانوں کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہے اور زمین کا بھی۔ آسمان سے مینہ برستا ہے جسے زمین جذب کرتی ہے۔ تو اس کی قوت روئیدگی اپنا کام کرنا شروع کردیتی ہے۔ اس سے فصلیں، غلے، پھل دار درخت، پھول اور مویشیوں کے گھاس اور چارہ اگتا ہے۔ اس طرح روئے زمین پر جتنی بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق بس رہی ہے سب کی غذا کا سامان فراہم ہوجاتا ہے۔ کروڑوں اور اربوں کی تعداد میں صرف انسان ہیں جو صرف ایک نوع ہے۔ جبکہ جاندار اشیاء کی انواع کی تعداد لاکھوں تک جاپہنچتی ہے کچھ پانی کی مخلوق ہے۔ کچھ خشکی کی اور کچھ ہوائی مخلوق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کی روزی کا ایسا جامع اور مکمل انتطام فرما دیا ہے کہ سب جانداروں کو روزی مہیا ہو رہی ہے۔ اب بتلائیے کہ اس پورے نظام ربوبیت عامہ میں کوئی فرشتہ، کوئی نبی، کوئی ولی، کوئی بزرگ یا کوئی دوسرا معبود شریک ہے کہ اللہ کے علاوہ اس کی بھی عبادت کی جائے۔ عبادت تو انتہائی عاجزی اور تذلل کا نام ہے اور اسی کو سزاوار ہے۔ جو انتہائی درجہ میں کامل اور بااختیار ہو، کسی ناقض، عاجز یا محتاج مخلوق کی یہ مقام کیسے دیا جاسکتا ہے۔ [٦١]عدل کا لغوی مفہوم:۔ عدل کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کا معنی برابر ہونا بھی اور برابر کا بدلہ بھی۔ پھر یہ لفظ لغت ذوی الاضداد سے ہے۔ یعنی اس کا معنی انصاف کرنا بھی ہے اور بے انصافی کرنا بھی۔ اس لحاظ سے اس جملہ کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں۔ مثلاً ایک تو ترجمہ سے ہی واضح ہے کہ جب ربوبیت عامہ کا پورے کا پورا نظام صرف اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہو تو عبادت میں دوسروں کو اس میں شامل کرلینا کس قدر بے انصافی اور ظلم کی بات ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس اعتراف حقیقت کے باوجود یہ لوگ اپنے معبودوں کو اللہ کے برابر کا درجہ دیتے ہیں۔ اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ راہ راست سے بڑھ جاتے ہیں یعنی اعتراف حقیقت کے باوجود اس کا نتیجہ غلط نکال رہے ہیں۔