قَالَ يَا قَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُونَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ ۖ لَوْلَا تَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
کہا اے میری قوم! تم بھلائی سے پہلے برائی کیوں جلدی مانگتے ہو، تم اللہ سے بخشش کیوں نہیں مانگتے، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
[٤٦] مخالفین یا چودھری حضرات چونکہ نبی کی نبوت کے ہی منکر ہوتے ہیں لہٰذا وہ اس کی ہر بات کو جھوٹا سمجھتے ہیں۔ نبی انھیں بھلے کاموں کی دعوت دیتا ہے اور پہلے سے کئے ہوئے برے کاموں سے توبہ و استغفار کی تلقین کرتا ہے۔ نیز برے کاموں کے انجام بد اور عذاب الٰہی سے ڈراتا ہے۔ تو متکبر لوگ نبی سے یوں کہنے لگتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو اب تک ہم پر وہ عذاب آیا کیوں نہیں۔ جس کی تم رٹ لگا رہے ہو۔ اور جو کرنے کے کام ہوتے ہیں یعنی اللہ سے مغفرت اور رحمت طلبی، ان باتوں کی طرف وہ توجہ ہی نہیں کرتے۔ صالح علیہ السلام نے ان کے اسی طرز عمل پر تنقید فرمائی ہے۔