لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ
ایمان والے مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست مت بنائیں اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ کی طرف سے کسی چیز میں نہیں مگر یہ کہ تم ان سے بچو، کسی طرح بچنا اور اللہ تمھیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
[٣١] کافروں سے دوستی میں استثناء کی صورتیں :۔ اس آیت میں مومنوں کو انفرادی اور اجتماعی دونوں لحاظ سے خطاب ہے۔ یعنی کوئی مومن کسی کافر کو دوست نہ بنائے۔ مومنوں کی جماعت کافروں کی جماعت کو دوست نہ بنائے اور نہ ہی مومنوں کی حکومت کافروں کی حکومت کو اپنا دوست بنائے۔ وجہ یہ ہے کہ کافر کبھی مومن کا خیر خواہ نہیں ہوسکتا۔ جب بھی اسے موقع ملے گا وہ نقصان ہی پہنچائے گا۔ اس سے خیر کی توقع نہیں اور اس میں استثناء یہ ہے کہ اگر تمہیں محض بے تعلق رہنے کی وجہ سے کسی کافر سے کچھ خطرہ ہو تو ظاہرداری اور مدارات کے طور پر اس سے دوستی رکھنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اب اس میں بے شمار باتیں ایسی آجاتی ہیں جو محض مومن کی صوابدید پر چھوڑ دی گئی ہیں۔ مثلاً یہ خطرہ جان، مال اور آبرو کے ضائع ہونے کا ہے یا کسی اور بات کا ؟ اور آیا یہ خطرہ فی الواقع موجود ہے یا موہوم ہے؟ نیز یہ کہ اس خطرہ کا اثر محض اس کی ذات تک محدود ہے یا یہ بات دوسرے مسلمانوں کے لیے بھی فتنہ کا سبب بن سکتی ہے؟ یا اگر وہ کافروں سے دوستی رکھ کر اپنے آپ کو محفوظ کرلیتا ہے تو اس کا نقصان دوسرے مسلمانوں کو تو نہ پہنچے گا ؟ وغیرہ وغیرہ۔ اب دیکھئے کہ ان تمام سوالوں کے جوابات مختلف ہیں۔ مثلاً پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر فی الواقعہ جان، مال اور آبرو خطرہ میں ہے تو اس اجازت سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ موہوم خطرات کا اعتبار نہیں کرنا چاہئے اور اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر کافر سے ظاہرداری اور بچاؤ کی تدبیر نہ کی جائے اور اس کا نقصان مسلمانوں کو پہنچتا ہو تو ضرور بچاؤ اور تحفظ کی راہ نکالی جائے اور چوتھے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر اس کی دوستی سے وہ خود تو محفوظ ہو، مگر دوسرے مسلمانوں کو نقصان پہنچ رہا ہو تو ہرگز ایسا نہ کرنا چاہئے۔ ایسے موقعوں پر ان سوالوں کے علاوہ اور بھی کئی طرح کے سوال پیدا ہوسکتے ہیں۔ مثلاً جس خطرہ کو وہ حقیقی سمجھ رہا ہے وہ محض ایک فریب ہو۔ وغیرہ۔ ان سوالوں کا جواب نہایت ایمانداری اور دینداری سے دل میں سوچ لینا چاہئے پھر اس کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس اجازت کے بعد فرما دیا ﴿وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ﴾ گویا ایسی باتوں کا جواب اس اللہ سے ڈر کر تمہیں سوچنا چاہئے جس کے ہاں تمہیں لوٹ کر جانا ہے اور وہ تمہارے دلوں کے حالات اور خیالات تک کو بھی خوب جانتا ہے اور اس بات پر بھی قادر ہے کہ اگر تم کافر سے ڈرو نہیں بلکہ اللہ کے ہی ڈر کو مقدم رکھو تو تمہیں انکے فتنہ و شر سے بچانے کی پوری قدرت رکھتا ہے اور کئی دوسری راہیں بھی پیدا کرسکتا ہے۔