قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ ۚ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ ۖ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ
اس نے کہا جس کے پاس کتاب کا ایک علم تھا، میں اسے تیرے پاس اس سے پہلے لے آتا ہوں کہ تیری آنکھ تیری طرف جھپکے۔ پس جب اس نے اسے اپنے پاس پڑا ہوا دیکھا تو اس نے کہا یہ میرے رب کے فضل سے ہے، تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتاہوں، یا ناشکری کرتا ہوں اور جس نے شکر کیا تو وہ اپنے ہی لیے شکر کرتا ہے اور جس نے ناشکری کی تو یقیناً میرا رب بہت بے پروا، بہت کرم والا ہے۔
[٣٤] ملکہ سباکاتخت کتنے عرصہ میں اور کیسے سلیمان علیہ السلام کے پاس آپہنچا:۔ ابھی اس دیو ہیکل کی بات ختم نہ ہونے پائی تھی کہ دربار میں ایک اور شخص بول اٹھا کہ میں اس تخت کو کم سے کم وقت میں آپ کے پاس لاسکتا ہوں۔ آپ اگر آسمان کی طرف نگاہ دوڑائیں پھر نگاہ نیچے لوٹائیں تو صرف اتنی مدت میں وہ تخت آپ کے قدموں میں پڑا ہوگا۔ تخت لانے والاکون تھا؟ وہ شخص کون تھا ؟ جن یا انسان؟ وہ کتاب کونسی تھی؟ ام الکتاب یعنی لوح محفوظ تھی یا قرآن تھا یا کوئی اور کتاب تھی؟ وہ علم تقدیر الٰہی کا علم تھا یا کسی اور قسم کا علم تھا ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب قرآن و حدیث میں نہیں ملتا۔ اور غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ باتیں سمجھنا انسان کی محدود عقل سے ماوراء ہیں۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ وہ شخص آپ کا وزیر آصف بن برخیا تھا۔ کتاب سے مراد کتب سماویٰ ہے۔ اور اسم اعظم کا عامل اور اللہ کے اسماء اور کلام اللہ کی تاثیر سے واقف تھا لیکن یہ سب قیاس آرائیاں ہیں۔ البتہ نتیجہ قرآن نے واضح طور پر بتلا دیا کہ وہ شخص اپنے دعویٰ میں بالکل سچا تھا۔ اور فی الواقع اس نے چشم زدن میں ملکہ بلقیس کا تخت حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس لاحاضر کیا تھا۔ ایسے واقعات اگرچہ خرق عادت ہیں تاہم موجودہ علوم نے ایسی باتوں کو بہت حد تک قریب الفہم بنادیا ہے۔ مثلاً یہی زمین جس پر ہم آباد ہیں سورج کے گرد سال بھر چکر کاٹتی ہے اور اس کی رفتار چھیاسٹھ ہزار چھ سو میل فی گھنٹہ بنتی ہے۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اس قدر عظیم الجثہ کرہ زمین برق رفتاری کے ساتھ چکر کاٹ رہا ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا اور یہ ایسی بات ہے کہ ہم ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں۔ اب اس زمین کی جسامت اور وزن کے مقابلہ میں ملکہ بلقیس کے تخت کی جسامت اور وزن دیکھئے اور مآرب سے یروشلم کا صرف ڈیڑھ ہزار میل فاصلہ ذہن میں لاکر غور فرمائیے کہ اگر یہی بات ممکن ہے تو دوسری کیوں ممکن نہیں ہوسکتی۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ جو شخص چشم زدن میں تخت لایا تھا تو وہاں بھی اللہ ہی کی قدرت کام کر رہی تھی۔ یہ اس شخص کا کوئی ذاتی کمال نہ تھا۔ اور نہ ہی وہ تخت ظاہری اسباب کے ذریعہ وہاں لایا گیا تھا۔ بعض عقل پرستوں نے اس تخت لانے کے واقعہ سے متعلق بھی عقل کے گھوڑے دوڑائے ہیں اور ایسی بے ہودہ تاویلات پیش فرمائیں ہیں کہ عقل ہی سر پیٹ کر رہ جائے۔ مثلاً یہ کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو ملکہ بلقیس کا تخت مطلوب نہ تھا بلکہ اس سے ملتا جلتا تخت مطلوب تھا اور اس غرض کے لئے انہوں نے ٹھیکیداروں سے ٹنڈر طلب کئے تھے۔ وغیر ذلک من الخرافات یہاں طویل بحثوں کا اندراج ممکن نہیں۔ البتہ میں نے اپنی تصنیف ''عقل پرستی اور انکارمعجزات'' میں ایسی سب تاویلات اور ان کا تجزیہ و تردید تفصیل سے پیش کردی ہے۔ [٣٥] جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے چشم زدن میں ملکہ کا تخت اپنے قدموں میں پڑا دیکھا تو فوراً اس بات کا اعتراف کیا کہ یہ مجھ پر اللہ کا فضل ہے۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ تخت معجزانہ طریق پر وہاں لایا گیا تھا اور اس کی عقلی توجیہات ناممکن ہیں۔ ورنہ اگر یہ کوئی عادی امر ہوتا تو نہ یہ اللہ کے فضل کی کوئی بات تھی اور نہ ہی اس وقت اللہ کا شکر ادا کرنے کا خیال آسکتا تھا۔ [٣٦] قرآن میں متعدد مقامات پر یہ مضمون دہرایا گیا ہے کہ انسان کی دنیا میں آزمائش صرف اس بات پر ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتا ہے یا ناشکرا بن کر رہتا ہے۔ نیز ایمان کی ضد بھی کفر ہے۔ اور شکر کی ضد بھی کفر ہے۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ایمان اور شکر کا آپس میں گہرا تعلق ہے ویسا ہی کفر اور ناشکری میں گہرا تعلق ہے۔ جو شخص جس قدر زیادہ مضبوط ایمان والا ہوگا اس قدر وہ اللہ کا شکرگزار بندہ ہوگا اور جو شخص جس درجے کا کافر ہوگا۔ اتنا ہی وہ ناشکرا ہوگا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام چونکہ اللہ کے نبی تھے اس لئے وہ جب کوئی اللہ کا انعام یا اس کا فضل دیکھتے تو فوراً اللہ کا شکر ادا کرنے میں مشغول ہوجاتے۔ اور یہ انبیاء اور ایمانداروں کا دستور ہوتا ہے۔ اس کے برعکس کافر پر جب اللہ تعالیٰ کوئی انعام فرماتا ہے تو شکر ادا کرنے کی بجائے اس کی طبیعت مزید سرکشی اور تکبر کی طرف مائل ہونے لگتی ہے اور وہ اترانے اور شیخیاں بگھارنے لگتا ہے۔ [٣٧] شکرکی تاثیر:۔ شکر اپنے اندر ایک خاص تاثیر رکھتا ہے اور وہ ہے نعمت کی افزونی یعنی شکر کی خاصیت ہے کہ وہ مزید نعمتوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے اس کے برعکس ناشکری کی خاصیت یہ ہے کہ ناشکرا آدمی موجودہ نعمت سے بھی محروم کردیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ ایسی حقیقت ہے جس کا ہر شخص ذاتی طور پر بھی تجربہ رکھتا ہے اور تجربہ کرسکتا ہے۔ تاہم ثبوت کے طور پر اس پر قرآن کریم کی صریح آیت بھی موجود ہے ارشاد باری ہے : ’’اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو یاد رکھو میرا عذاب بڑا سخت ہے‘‘ (١٤: ٧) شکر سے متعلق مزید تفصیلات اسی آیت کے تحت حاشیہ میں ملاحظہ فرمائیے۔ اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ شکر ادا کرنے کا فائدہ شکر ادا کرنے والے کو ہی پہنچتا ہے۔ [٣٨]ناشکری کا نقصان:۔ اور اگر کوئی شخص ناشکری کرتا ہے تو اس کا نقصان اسی کو پہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا نہ کسی کے شکر ادا کرنے سے کچھ سنور جاتا ہے اور نہ کسی کی ناشکری کرنے سے اس کا کچھ بگڑ جاتا ہے۔ وجہ وہ یہ ہے کہ وہ بندوں کے شکر یا ناشکری سے بے نیاز ہے۔ کیونکہ اس کی ذات اور اس کے سب کارنامے اپنی ذات میں محمود ہیں۔ وہ کسی کے تعریف بیان کرنے کے محتاج نہیں ہیں۔ اس مضمون کو درج ذیل قدسی حدیث میں پوری طرح واضح کردیا گیا ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے میرے بندو! اگر اول سے آخر تک تم سب انسان اور جن اپنے سب سے زیادہ متقی شخص کے دل جیسے ہوجاؤ تو اس سے میری بادشاہی میں کچھ اضافہ نہ ہوجائے گا اور اے میرے بندو اگر اول سے آخر تک تم سب انسان اور جن اپنے سے زیادہ بدکار شخص کے دل کی طرح ہوجاؤ تو اس سے میری بادشاہت میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی۔ اور اے میرے بندو! یہ تمہارے اپنے اعمال ہی ہیں جن کا میں تمہارے حساب میں شمار کرتا ہوں پھر تمہیں ان اعمال کی پوری جزا دیتا ہوں لہٰذا جسے کوئی بھلائی نصیب ہو اسے چاہئے کہ اللہ کا شکر ادا کرے۔ اور جسے کچھ اور نصیب ہو تو وہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرے‘‘ ( مسلم۔ کتاب البرواصلہ۔ باب تحریم الظلم )