سورة الشعراء - آیت 212
إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ
ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد
بلاشبہ وہ تو سننے ہی سے الگ کیے ہوئے ہیں۔
تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی
[١٢٥] یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام جبریل روح الامین کو دے کر بھیجا جو سیدھے یہ کلام لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل پر نازل ہوئے۔ اب اس راستہ میں کوئی ایسا مقام آتا ہے جہاں سے شیطان اس کلام کا کچھ حصہ سن سکتے ہوں؟ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس مضمون کی وضاحت کردی گئی ہے کہ جب یہ کلام نازل کیا جاتا ہے تو اس کے ارد گرد کڑا پہرہ بھی مقرر کیا جاتا ہے جس کے دو فائدے ہیں۔ ایک یہ کہ اس میں کہیں سے بھی باطل کی آمیزش نہیں ہوسکتی (٤١: ٤٢) اور دوسرا یہ کہ شیاطین اگر اس کلام کو چوری چھپے سننے کی کوشش کریں تو سن نہیں سکتے بلکہ شہاب ثاقب کے ذریعہ ان کی تواضع کی جاتی ہے۔ (٧٢: ٩ )