سورة الشعراء - آیت 139

فَكَذَّبُوهُ فَأَهْلَكْنَاهُمْ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

پس انھوں نے اسے جھٹلا دیا تو ہم نے انھیں ہلاک کردیا، بے شک اس میں یقیناً ایک نشانی ہے اور ان کے اکثر ایمان لانے والے نہیں تھے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٨٧]قوم عاد پرعذاب کی کیفیت:۔ جب ان لوگوں نے حضرت ہود علیہ السلام کو اور وعدہ عذاب کو جھٹلانے میں حد کردی اور ان پر حجت تمام ہوگئی تو ان پر اللہ کا عذاب آگیا۔ یہ عذاب قہر الٰہی بن کر نازل ہوا۔ تند و تیز آندھی چلی جو آٹھ دن اور سات راتیں مسلسل چلتی رہی۔ آندھی اتنی تیز تھی کہ کھڑے آدمیوں کو ان کے پاؤں سے اکھاڑ اکھاڑ کر ایک دوسرے پر پھینک رہی تھی۔ یہ آندھی ان کے مضبوط اور عالی شان گھروں میں گھس گھس کر ان کے ایک ایک فرد کو تباہ کر رہی تھی۔ اس عذاب کے وقت ان کے یہ مضبوط اور عالی شان مکان کسی بھی کام نہ آسکے۔ اور یہ سرکش اور متکبر قوم پوری کی پوری تباہ و برباد کردی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس عذاب سے پہلے ہی ہود علیہ السلام کو وحی کردی تھی۔ چنانچہ وہ عذاب سے پہلے اپنے پیروکاروں کو ساتھ لے کر وہاں سے ہجرت کرکے نکل گئے۔ [٨٨] اس قوم کے انجام سے بھی یہی نتیجہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ معاندین حق کو اتمام حجت کے بعد نیست و نابود کردیتا ہے اور اپنے فرمانبرداروں کی نجات کی صورت خود ہی پیدا کردیتا ہے۔ کاش! کوئی اس عبرت ناک انجام سے سبق حاصل کرسکے۔ مگر ایسے لوگ کم ہی ہوا کرتے ہیں۔