قُل لِّلَّذِينَ كَفَرُوا سَتُغْلَبُونَ وَتُحْشَرُونَ إِلَىٰ جَهَنَّمَ ۚ وَبِئْسَ الْمِهَادُ
ان لوگوں سے کہہ دے جنھوں نے کفر کیا کہ تم جلد ہی مغلوب کیے جاؤ گے اور جہنم کی طرف اکٹھے کیے جاؤ گے اور وہ برا ٹھکانا ہے۔
[١٣]یہودکاانجام :۔ اس آیت میں اگرچہ روئے خطاب سب قسم کے کافروں سے ہے تاہم یہود مدینہ بالخصوص اس آیت کے مخاطب ہیں۔ ہوا یہ تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر میں مسلمانوں کو فتح عظیم عطا فرمائی اور اس سے متاثر ہو کر عبداللہ بن ابی (رئیس منافقین) نے اپنے ساتھیوں سمیت اسلام قبول کرلیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کے درمیان بسنے والے یہود بنو قینقاع کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ’’اے یہود! اسلام قبول کرلو تو عافیت میں رہو گے ورنہ تمہارا بھی وہی حشر ہوگا جو مشرکین مکہ کا ہوا ہے لیکن وہ بجائے نصیحت قبول کرنے کے شیخی میں آگئے کہنے لگے کہ مکہ کے کافر تو جاہل اور فنون جنگ سے ناآشنا تھے جو پٹ گئے، ہم سے سابقہ پڑا تو سمجھ آجائے گی۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ پھر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پیشین گوئی جس طرح حرف بہ حرف پورا ہوا اس پر تاریخ شاہد ہے کہ سب سے پہلے یہی یہود بنو قینقاع جلا وطن کئے گئے۔ تو انہوں نے خیبر جاکر دم لیا۔ پھر یہود بنونضیر جلاوطن ہوئے تو انہوں نے بھی خیبر کی راہ لی، پھر بنوقریظہ کی باری آئی تو قتل کئے گئے اور لونڈی و غلام بنا لیے گئے۔ پھر خیبر میں یہود کی پٹائی ہوئی تو بحیثیت مزارعہ وہاں آباد رہنے کی درخواست کی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منظور فرما لیا۔ تاہم یہود چونکہ ایک فتنہ انگیز قوم ہے ان کی شرارتوں کی بنا پر بالآخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں یہاں سے بھی نکال باہر کیا۔ یاد رہے کہ کافروں کے حق میں یہ پیشین گوئی اس وقت کی گئی جب مسلمانوں پر ہر وقت خوف و ہراس کی فضا طاری رہتی تھی، اگرچہ اس وقت مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی نوزائیدہ ریاست کی بنیاد پڑچکی تھی۔ لیکن وہ ہر لحاظ سے کمزور اور اقلیت میں تھے اور عرب بھر کے مشرکین، یہود اور نصاریٰ اور منافقین اس ریاست کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کرنے پر تلے ہوئے تھے اور ان سب گروہوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کی کامیابی کے آثار دور تک نظر نہیں آتے تھے۔ لیکن اللہ کی مدد مسلمانوں کے یوں شامل حال ہوئی اور حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ یہ سب فرقے باری باری مات کھاتے گئے اور چند ہی سال بعد عرب بھر میں اسلام کا بول بالا ہوگیا۔