سورة الشعراء - آیت 78

الَّذِي خَلَقَنِي فَهُوَ يَهْدِينِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

وہ جس نے مجھے پیدا کیا، پھر وہی مجھے راستہ دکھاتا ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥٤] ان چار آیات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا ذکر کیا۔ جن کا تعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات سے ہی نہیں بلکہ ہر انسان سے تعلق ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی یہی وہ صفات ہیں جن کی بنا پر ہر انسان کو صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کرنا چاہئے۔ پہلی صفت یہ ہے کہ اسی نے مجھے پیدا کیا اور وجود بخشا۔ اللہ تعالیٰ کی یہ صفت ایسی ہے جس کا کسی بھی دور کے مشرکوں نے کبھی انکار نہیں کیا۔ یعنی جب میری تخلیق میں کسی دوسری ہستی کا کچھ حصہ نہیں۔ تو میری عبادت میں کوئی دوسرا کیسے حصہ دار بن سکتا ہے؟ دوسری صفت یہ ہے کہ اللہ نے مجھے پیدا کرکے تنہا نہیں چھوڑ دیا۔ بلکہ ہر ہر مقام پر میری رہنمائی بھی کرتا ہے۔ اس سے مراد فطری رہنمائی بھی ہے جو ہر جاندار کو مہیا ہوتی ہے۔ مثلاً جب پیدا ہوتا ہے تو اپنی خوراک حاصل کرنے کے لئے ماں کی چھاتیوں کی طرف لپکتا ہے۔ پھر اللہ نے ہی اسے دودھ پینے کا طریقہ بھی بتلا دیا۔ غرض موقع و محل کے لحاظ سے اللہ ہر ہر مقام پر ہر جاندار کی رہنمائی اور دست گیری کرتا ہے اور انسانوں کی اخروی فلاح کے لئے وحی کے ذریعے رہنمائی فرماتا ہے اور اس ہمہ گیر قسم کی رہنمائی میں کسی دوسری ہستی کا کچھ بھی تعلق نہیں ہے۔ لہٰذا میری عبادت میں اللہ کے علاوہ دوسرا کوئی کیسے شریک بن سکتا ہے۔