وَإِنَّا لَجَمِيعٌ حَاذِرُونَ
اور بے شک ہم یقیناً سب چوکنے رہنے والے ہیں۔
[٣٩]بنی اسرائیل کے ایمان لانے پر لڑکوں کوقتل کرنے کی سزا:۔ اس مقام پر بہت سے واقعات چھوڑ دیئے گئے ہیں۔ یہ بات بھی پوری طرح معلوم نہیں ہوسکی کہ آیا فرعون نے ان جادوگروں کو بعض مصلحتوں کی بنا پر سولی چڑھانے کی دھمکی دی تھی یا فی الواقع چڑھایا بھی تھا۔ غالب گمان یہی ہے کہ اس نے یہ کام ضرور کیا ہوگا۔ وجہ یہ ہے کہ باطل پرست جب دلائل کے میدان میں شکست کھا جاتے ہیں تو تشدد اور اوچھے ہتھیاروں پر اتر آتے ہیں۔ پھر بھی ان کا غصہ رفع نہیں ہوتا۔ کیونکہ ایسے مظالم کے نتائج بسا اوقات توقع کے خلاف نکلتے ہیں اور جس کو جتنی قوت سے دبانے کی کوشش کی جائے اتنی ہی قوت سے ابھرتی اور اپنی جڑیں مضبوط بنا لیتی ہے۔ مصر میں بھی یہی کچھ ہوا۔ بے شمار اسرائیلی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے تو موجودہ فرعون نے اس اسرائیلیوں کے لئے وہی سزا تجویز کی جو اس کے باپ نے کی تھی۔ یعنی بنی اسرائیل کے نومولود سب لڑکوں کو مار ڈالا جائے اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جائے اور اس طرح بتدریج ان کی نسل کو ختم کردیا جائے۔ یہ تو فرعون کا منصوبہ تھا لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ علاوہ ازیں فرعون کی قوم کے چند لوگ چوری چھپے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے تھے۔ بنی ا سرائیل کی شام کی طرف ہجرت:۔ جب فرعون کے مظالم کی حد ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وحی کے ذریعہ ملک مصر سے ہجرت کرکے ملک شام کی طرف جانے کا حکم دیا کہ وہ بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر راتوں رات نہایت خفیہ طریقہ سے یہاں سے نکل جائیں۔ اور پوری احتیاط ملحوظ رکھیں اور جب سفر شروع کریں تو جلد از جلد مصر کے ملک سے پار نکل جانے کی کوشش کریں فرعون یقیناً ان کا تعاقب کرے گا۔ ایسا نہ ہو کہ وہ مصر کے اندر ہی تم لوگوں کے سر آن پہنچے۔ فرعون کو جب موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کی روانگی کا علم ہوا تو بہت سٹ پٹایا۔ اس کے سارے منصوبے خاک میں مل رہے تھے اس نے ایک لشکر جرار تیار کرنے کا حکم دیا اور درباریوں سے کہنے لگا۔ یہ مٹھی بھر کمزور سی جماعت ہے اور ان لوگوں نے فرار کی راہ اختیار کرکے ہمیں خواہ مخواہ غصہ چڑھا دیا ہے لہٰذ ا ہمیں چاہئے کہ فوراً ان کا تعاقب کرکے انہیں کیفر کردار تک پہنچائیں۔ ہمارے مسلح اور جرار لشکر کے مقابلہ میں ان بے چاروں کی حقیقت ہی کیا ہے۔