قُلْ مَا يَعْبَأُ بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ ۖ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا
کہہ میرا رب تمھاری پروا نہیں کرتا اگر تمھارا پکارنا نہ ہو، سو بے شک تم نے جھٹلا دیا، تو عنقریب (اس کا انجام) چمٹ جانے والا ہوگا۔
[٩٥] اللہ کی بے نیازی :۔ یعنی اگر تم اللہ کو پکارو گے اس کی عبادت کرو گے اس کے حضور توبہ استغفار کرو گے اس سے اپنی حاجتیں طلب کرو گے تو اس میں تمہارا اپنا ہی بھلا ہے۔ اور اگر تم ان باتوں میں بے نیازی کا مظاہرہ کرو گے تو اللہ کی کوئی ضرورت تمہاری پکار اور دعا یا عبادت نہ کرنے کی وجہ سے اٹکی ہوئی نہیں ہے۔ اس آیت کی تفسیر کے لئے درج ذیل حدیث قدسی ملاحظہ فرمائیے۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :” اے میرے بندو! تم نہ میرا کچھ نقصان کرسکتے ہوں اور نہ مجھے کچھ فائدہ پہنچا سکتے ہو۔ اگر تمہارے اگلے اور پچھلے اور آدمی اور جن سب ایسے ہوجائیں جیسے تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار شخص ہے تو اس سے میری سلطنت میں کچھ افزائش نہ ہوگی۔ اور اگر تمہارے اگلے پچھلے اور آدمی اور جن سب ایسے ہوجائیں جیسے تم میں کوئی سب سے زیادہ بدکردار ہے تو بھی میری سلطنت میں کچھ کمی واقع نہ ہوگی۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے اور پچھلے اور آدمی اور جن سب ایک میدان میں جمع ہو کر مجھ سے مانگنا شروع کردیں اور میں ہر ایک کو وہی کچھ دیتا جاؤں جو کچھ اس نے مانگا ہے تو جو کچھ میرے پاس ہے اس میں سے کچھ بھی کم نہ ہوگا۔ مگر اتنا جیسے سمندر میں سوئی کو ڈبو کر نکال لیا جاتا ہے۔ اے میرے بندو! یہ تمہارے ہی اعمال ہیں جنہیں میں تمہارے لئے شمار کرتا رہتا ہوں۔ پھر تمہیں ان کا پورا پورا بدلہ دوں گا۔ سو جس کو اچھا بدلہ ملا اسے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے اور اس کی حمد و ثنا بیان کرنا چاہئے اور جسے برا بدلہ ملے تو اسے اپنے آپ ہی کو ملامت کرنا چاہئے۔“ ( مسلم۔ کتاب البرو الصلۃ۔ باب تحریم الظلم) [ ٩٦]کیااچھے اور برے اعمال کےنتائج لابدی ہیں :۔ اس آیت کے مخاطب قریش مکہ ہیں۔ جنہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جھٹلایا اور اس کی آیات کو بھی۔ اس تکذیب کا انجام ان کے گلے کا ہار بن گیا۔ ان پر اللہ کی گرفت کا آغاز غزوہ بدر سے ہوا۔ اور اس گرفت میں دم بدم اضافہ ہی ہوتا گیا حتیٰ کہ جب مکہ فتح ہوا تو انہیں اپنی جان کے لالے پڑگئے۔ اور جزیرہ عرب سے کفر و شرک یا کافروں اور مشرکوں کا نام و نشان تک مٹ گیا اور ان میں سے وہی زندہ رہے جنہوں نے اسلام کی آغوش میں پناہ لے لی۔ اس آیت سے ایک گمراہ فرقہ نے یہ استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نیکی اور بدی کے لئے جزا و سزا کے جو قانون مقرر کر رکھے ہیں۔ وہ لابدی ہیں اور ان میں کسی طرح کا تخلف نہیں ہوسکتا۔ اس سلسلہ میں ان کی گمراہی یہ نہیں کہ انہوں نے اس آیت سے غلط نتیجہ نکالا ہے بلکہ گمراہی یہ ہے کہ انہوں نے صرف اس آیت یا اس جیسی ہی دوسری آیات کو مدنظر رکھا ہے۔ اور وہ آیات جن میں اللہ کی مغفرت اور رحمت کا ذکر ہے۔ ان کو پس انداز کردیا ہے۔ اللہ کے عدل کا تقاضا صرف یہ ہے کہ کسی ظالم کو اس کے جرم سے زیادہ سزا نہ دے اور کسی محسن کو اس کی نیکی کے برابر جزا ضرور دے۔ اس سے کم نہ دے۔ اور اللہ کا غفور اور رحیم ہونا عدل کے منافی نہیں بلکہ اس سے بلند تر صفت ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ محسن کو اس کی نیکی کے تناسب سے بہت زیادہ بدلہ دے دے یا کسی ظالم کو کسی مصلحت کی بنا پر معاف کردے اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہے۔