سورة الفرقان - آیت 63

وَعِبَادُ الرَّحْمَٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر نرمی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں سلام ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٨٠] اللہ کے بندوں کی صفات :۔سابقہ آیات میں رحمٰن اور رحمٰن کی نشاندہی کا ذکر چل رہا تھا تو یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی نسبت اپنی طرف کرنے کے بجائے رحمٰن کی طرف منسوب کرکے واضح کردیا کہ رحمٰن بھی اللہ تعالیٰ ہی کا ذاتی نام ہے۔ ویسے تو جتنی بھی اللہ کی مخلوق ہے سب ہی رحمٰن کے بندے ہیں۔ لیکن یہاں اس سے مراد اللہ کے وہ بندے ہیں جو اللہ کو محبوب ہیں۔ اگلی آیات میں ایسے ہی اللہ کے بندوں کی کچھ صفات مذکور ہیں۔ ان آیات میں دراصل رحمٰن کے بندوں اور شیطان کے بندوں کی طرز زندگی اور ان کے اعمال و افعال کا تقابل پیش کیا جارہا ہے۔ پہلے شیطان کے بندوں کا ذکر چل رہا تھا۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی صفات بیان کرکے بہت سی باتوں کو انسان کے فہم پر چھوڑ دیا ہے۔ تکبرانہ چال کی ممانعت ‘چال انسان کےخیالات کی عکاس ہوتی ہے :۔ اللہ کے بندوں کی پہلی صفت یہ بیان فرمائی کہ ان کی چال میں انکساری ہوتی ہے تکبر کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ انسان کی چال ایسی چیز ہے جو اس کے ذھن کی پوری پوری عکاسی کردیتی ہے۔ ایک شریف النفس اور سلیم الطبع انسان کی چال اور قسم کی ہوتی ہے۔ کسی ظالم و جابر کی اور قسم کی، اوباش اور غنڈوں کی اور قسم، اور متکبر اور شیخی باز لوگوں کی اور قسم کی۔ گویا ہر انسان کے چال ڈھال سے پہلی نظر میں ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ انسان کون سے طبقہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں چال کی صفت میں ھَونا کا لفظ استعمال فرمایا ھونا نہیں فرمایا۔ ھونا کا مطلب ایسی چال ہے جس میں تواضع، سبکساری اور وقار پایا جائے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چال ایسی ہی ہوتی تھی۔ قدم چھوٹے مگر تیز گام اور چال میں وقار ہوتا تھا اور ھونا کا مطلب ایسی چال ہے جس میں کمزوری، کم ہمتی اور ذلت کا پہلو محسوس ہوتا ہے جیسے کسی بیمار اور بڑے بوڑھے کی چال یا کسی ایسے ریا کار کی چال جو لوگوں میں اپنی انکساری کا سکہ بٹھانا چاہتا ہو۔ جیسے متکربانہ چال ممنوع ہے ویسے ہی اس طرح کی چال بھی ممنوع ہے۔ ( نیز دیکھئے سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ٣٧ کا حاشیہ ) [٨١] بیہودہ مجالس سے اجتناب :۔ جاہل سے مراد بے علم یا کم علم یا نادان نہیں بلکہ کج بحث قسم کے لوگ ہیں۔ جن کا بحث میں مقصود کچھ سبق حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ مخاطب کو نیچا دکھانا یا اس کا مذاق اڑانا ہوتا ہے۔ اللہ کے بندوں کا شیوہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسی فضول اور بے ہودہ باتوں میں پڑ کر اپنا وقت ضائع نہیں کرتے۔ نہ ہی وہ ایسے لوگوں کی بدتمیزی یا بیہودگی کو برداشت کرتے ہیں۔بلکہ اگر کسی ایسے شخص سے سابقہ پڑ بھی جائے تو سلام کہہ کر اس سے کنی کترا جاتے ہیں۔ وہ گالی کا جواب گالی سے یا اینٹ کا جواب پتھر سے دینے والوں سے کنارہ کش رہتے ہیں اور ایسے لوگ کے نزدیک بھی نہیں پھٹکتے!