وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْنَا الْمَلَائِكَةُ أَوْ نَرَىٰ رَبَّنَا ۗ لَقَدِ اسْتَكْبَرُوا فِي أَنفُسِهِمْ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيرًا
اور ان لوگوں نے کہا جو ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے، ہم پر فرشتے کیوں نہیں اتارے گئے، یا ہم اپنے رب کو دیکھتے؟ بلا شبہ یقیناً وہ اپنے دلوں میں بہت بڑے بن گئے اور انھوں نے سرکشی اختیار کی، بہت بڑی سر کشی۔
[٢٩] کفار کامطالبہ کہ فرشتے ہم پر نازل ہوں :۔ کفار مکہ کے لغو قسم کے مطالبات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ جیسے تم پر فرشتہ نازل ہوتا ہے ایسے ہی ہم میں سے ہر ایک پر فرشتہ اترنا چاہئے۔ تاکہ ہمیں پورا یقین ہوجائے کہ جو کچھ تمہاری دعوت ہے وہ درست ہے اور اگر یہ نہیں ہوسکتا تو ہم کم از کم اپنے رب کو ہی دیکھ لیں۔ جو ہمیں ایک دفعہ یہ کہہ دے کہ میں فلاں شخص کو رسول بناکر بھیج رہا ہوں اور تمہیں اس پر ایمان لے آنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کے یہ مطالبات اس لئے نہیں ہیں کہ اگر ان کی یہ بات پوری ہوجائے تو یہ ایمان لانے کو بالکل تیار بیٹھے ہیں بلکہ یہ لوگ ایسی بکواس اس لئے کر رہے ہیں کہ انہیں یہ یقین نہیں ہے کہ مرنے کے بعد انییں ہمارے حصور پیش ہونا ہے۔ اگر انہیں اس بات کا یقین ہوتا تو کبھی ایسی باتیں نہ بناتے۔ [ ٣٠] یعنی ہم نے جو ان کو مال و دولت کی فراوانی اور آسودگی عطا کی ہے تو یہ اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنے لگے ہیں۔ وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اگر فرشتہ اس شخص پر جو ان کے خیال کے مطابق ان سے کم درجہ کا آدمی ہے، نازل ہوسکتا ہے تو آخر ہم لوگوں پر کیوں نازل نہیں ہوسکتا، یا پھر ہمیں خود اللہ تعالیٰ ان باتوں کی یقین دہانی کرائے۔ اس شخص کی باتوں پر آخر ہم لوگ کیسے یقین کرلیں؟