أَوْ كَظُلُمَاتٍ فِي بَحْرٍ لُّجِّيٍّ يَغْشَاهُ مَوْجٌ مِّن فَوْقِهِ مَوْجٌ مِّن فَوْقِهِ سَحَابٌ ۚ ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ إِذَا أَخْرَجَ يَدَهُ لَمْ يَكَدْ يَرَاهَا ۗ وَمَن لَّمْ يَجْعَلِ اللَّهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِن نُّورٍ
یا ان اندھیروں کی طرح جو نہایت گہرے سمندر میں ہوں، جسے ایک موج ڈھانپ رہی ہو، جس کے اوپر ایک اور موج ہو، جس کے اوپر ایک بادل ہو، کئی اندھیرے ہوں، جن میں سے بعض بعض کے اوپر ہوں، جب اپنا ہاتھ نکالے تو قریب نہیں کہ اسے دیکھے اور وہ شخص جس کے لیے اللہ کوئی نور نہ بنائے تو اس کے لیے کوئی بھی نور نہیں۔
[٦٦] یہ ان کافروں کی مثال ہے جو اپنے کفر میں پکے اور ہٹ دھرم ہیں۔ وہ صرف اللہ کی نافرمانی اور رسولوں کی تکذیب پر ہی اکتفا ہی نہیں کرتے۔ بلکہ رسول اور مومنوں کو ایذائیں اور دکھ بھی پہنچاتے ہیں اور اللہ کی راہ روکنے کے لئے ہر وقت سرگرم عمل رہتے ہیں۔ اس طرح ان کے کفر کا جرم شدید تر ہوتا جاتا ہے اور اس پر ان کے کفر کی کئی تہیں چڑھتی جاتی ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص گہرے سمندر میں رات کے وقت سفر کر رہا ہو۔ موجوں پر موجیں اٹھ رہی ہوں اور اوپر گہرے بادل بھی چھائے ہوں۔ اس طرح تین چار طرح کی تاریکیاں مل کر ایک ایسا گھٹا ٹوپ اندھیرا ہوجاتا ہے کہ اگر وہ شخص اپنا ہاتھ اپنی آنکھ کے سامنے لائے تو اپنے ہاتھ کو دیکھ بھی نہ سکے۔ کیا ایسے شخص سے توقع ہوسکتی ہے کہ سیدھی راہ پر اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔ اللہ تعالیٰ نے کفر کو ہمیشہ اندھیرے یا اندھیروں سے اور ہدایت کو روشنی سے تعبیر کیا ہے۔ اور اس معاند اور ہٹ دھرم کا تو یہ حال ہے کہ اس پر ایسے اندھیروں کے کئی ردے چڑھے ہوئے ہیں پھر اسے بھلا راہ ہدایت نصیب ہوسکتی ہے۔ [٦٧] یہ مضمون ﴿ اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾ سے شروع ہوا تھا اور یہ اس مضمون کا اختتام ہے۔ منبع ہدایت اور نور تو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ پھر جو شخص اللہ کی طرف رجوع ہی نہ کرے۔ بلکہ اللہ سے باغیانہ اور معاندانہ روش اختیار کرے۔ اسے ہدایت کی روشنی کیسے نصیب ہوسکتی ہے۔