وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّىٰ يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا ۖ وَآتُوهُم مِّن مَّالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ ۚ وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَمَن يُكْرِههُّنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِن بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور لازم ہے کہ حرام سے بہت بچیں وہ لوگ جو کوئی نکاح نہیں پاتے، یہاں تک کہ اللہ انھیں اپنے فضل سے غنی کر دے اور وہ لوگ جو مکاتبت ( آزادی کی تحریر) طلب کرتے ہیں، ان میں سے جن کے مالک تمھارے دائیں ہاتھ ہیں تو ان سے مکاتبت کرلو، اگر ان میں کچھ بھلائی معلوم کرو اور انھیں اللہ کے مال میں سے دو جو اس نے تمھیں دیا ہے، اور اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو، اگر وہ پاک دامن رہنا چاہیں، تاکہ تم دنیا کی زندگی کا سامان طلب کرو اور جو انھیں مجبور کرے گا تو یقیناً اللہ ان کے مجبور کیے جانے کے بعد بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
[٥٣] اس آیت سے پہلی آیت کے حاشیہ میں ذکر ہوچکا ہے کہ جو جوان مرد نکاح اور خانہ داری کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزے رکھنے کی تلقین فرمائی اور واضح فرما دیا کہ روزے رکھنا تمہارے عفیف اور پاکیزہ رہنے میں بہت مددگار ثابت ہوگا۔ کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ اسی ضبط نفس اور عفت کی برکت سے انہیں نکاح کا بہترین موقع مہیا فرما دے اور انھیں غنی بھی کردے۔ کہ معاشرہ میں بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو خود تو غنی ہوتے ہیں۔ لیکن وہ اپنی بیٹیوں کے رشتہ کے سلسلہ میں ایسا جوڑ چاہتے ہیں۔ جو شریف، نیک اور پاکیزہ سیرت انسان ہو۔ اور وہ اپنی بیٹی کی غربت کا خیال اس لئے نہیں کرتے کہ اس جوڑے کی غربت کا علاج ان کے پاس موجود ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اللہ کے فضل کی بے شمار راہیں ہیں۔ انسان کو بس اس کا فرمانبردار بن کر رہنا چاہئے۔ [٥٤] واضح رہے کہ عہد نبوی میں معاشرہ کا ایک کثیر حصہ غلاموں اور لونڈیوں پر مشتمل تھا۔ اور یہ معاشرہ کا جزولاینفک بن چکا تھا۔ کسی شخص کی دولت کا معیار ہی یہ سمجھا جاتا تھا کہ اس کے پاس کتنے غلام ہیں۔ گویا یہ غلام ان آزاد لوگوں کی آمدنی کا ذریعہ بنتے تھے۔ منڈیوں میں غلاموں کا آزادانہ خرید و فروخت ہوتی تھی۔ جیسے ہمارے ہاں بھیڑوں اور گائے بھینسوں کی ہوتی ہے۔ اسلام نے اس اس غلامی کے رواج کو سخت ناپسندیدہ سمجھا۔ غلاموں کی آزادی کے لئے ہر ممکن صورت اختیار کی لیکن شراب اور سود کی طرح اس کا کلی طور پر خاتمہ نہیں کیا۔ وجہ یہ ہے کہ تاقیامت جنگیں ہوتی رہیں گی اور قیدی بنتے رہیں گے۔ ایسے مواقع پر ایک غیر مسلم حکومت کے فوجی مفتوح قوم کی عورتوں پر جس طرح کی دست درازیاں کرتے اور ظلم و ستم ڈھاتے ہیں وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اسلام ایسی فحاشی اور ایسے مظالم کو حرام قرار دیتا ہے اور اس کے بجائے ملک یمین کی حلال راہیں کھولتا ہے۔ اسی اعلیٰ اخلاقی قدر کی بنا پر اسلام نے جنگی قیدیوں اور ملک یمین کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں کیا۔ اسلام نے غلامی کے رواج کی حوصلہ شکنی کے لئے بہت سے گناہوں کا کفارہ غلام کی آزادی قرار دیا۔ زکوٰۃ کے مصارف میں سے ایک مصرف یہ بھی فرمایا۔ مسلمانوں کو بہت بڑے اجر کا وعدہ فرما کر غلاموں کو آزاد کرنے اور کرانے کی ترغیب دی۔ غرض یہ باب بھی بڑا طویل ہے۔ ایسے ہی ذرائع میں سے مکاتبت بھی غلاموں کی آزادی کا ایک ذریعہ ہے۔ مکاتبت کا لغوی معنی تو باہمی تحریر یا لکھا پڑھی ہے۔ اور اصطلاحاً اس سے مراد وہ (تحریری یا زبانی) معاہدہ ہے جو غلاموں کی آزادی کے سلسلہ میں مالک اور غلاموں کے درمیان باہمی رضا مندی سے طے ہوجائے۔ مثلاً یہ کہ غلام یہ وعدہ کرے کہ میں اتنی رقم اتنی مدت کے بعد یا مدت کے اندر یکمشت یا بالاقساط ادا کروں گا اگر کوئی غلام اپنے مالک سے ایسی درخواست کرے تو مالک کو ایسی درخواست قبول کرلینا چاہئے۔ اس معاہدہ پر مزید کسی شرط کے اضافہ کی مالک کے لئے گنجائش نہیں ہوتی جیسا کہ درج ذیل حدیث سے ظاہر ہے : عمر ہ بنت عبدالرحمٰن کہتی ہیں کہ : بریرہ لونڈی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی وہ اپنی کتابت کے سلسلہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مدد چاہتی تھی۔ انہوں نے کہا : ” اگر تو چاہے تو میں تیرے مالکوں کو رقم ادا کردیتی ہوں مگر ولاء (تیرا ترکہ) میرا ہوگا“ اور اس کے مالکوں نے اسے کہا : اگر تو چاہے کتابت کی بقایا رقم دے دے پھر خواہ وہ مجھے آزاد کردیں۔ مگر اس کا ترکہ ہم ہی لیں گے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم بریرہ کو خرید کر آزاد کردو۔ اور ترکہ تو اسی کا ہوتا ہے جو آزاد کرے“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے اور فرمایا ” لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہیں۔ اور ایسی شرطیں جو اللہ کی کتاب میں نہ ہوں۔ خواہ کوئی سو شرطیں لگائے اسے کچھ بھی نہ ملے گا“ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب ذکر البیع والشراء فی المسجد) اگرغلام مالک سے مکاتبت کرنا چاہے تواسے مان لیناچاہیے :۔ مالک کے لئے یہ امر وجوب کے لئے ہے۔ یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ مالک اگر چاہے تو غلام کی مکاتبت کی درخواست کو قبول کرے اور چاہے تو نہ کرے اور مالک مکاتبت پر رضا مند نہ ہو تو اسے اسلام حکومت کی طرف سے ایسے معاہدہ کے لئے مجبور کیا جائے۔ البتہ ایسی مکاتبت کے لئے ایک شرط اللہ تعالیٰ نے خود ہی بتا دی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر مالک اپنی دیانتداری کے ساتھ اپنے لالچ کے بغیر یہ سمجھے کہ یہ آزادی فی الواقع غلام یا لونڈی کے حق میں بہتر نہ ہوگی۔ قید غلامی سے رہا ہو کر وہ چوری، بدکاری یا اور طرح طرح کی بدمعاشیاں نہ کرتا پھرے گا۔ اگر یہ اطمینان ہو تو اسے ضرور آزاد کردینا چاہئے۔ کہ وہ آزاد ہو کر معاشرہ میں اپنا مقام پیدا کرسکے اور اگر نکاح کرنا چاہے تو اپنے اختیار سے کرسکے۔ نیز کسی بھی میدان میں غلامی کی وجہ سے اس کے لئے میدان تنگ نہ ہو۔ یا پھر خیر کا یہ مطلب ہوسکتا ہے کہ آیا وہ اپنے اس عہد کو نباہ بھی سکتا ہے یا نہیں یعنی اپنے معاوضہ کی رقم ادا کرنے کے قابل ہے یا نہیں۔ [٥٥] مکاتب کی مالی امداد: اس جملہ کے مخاطب عام افراد معاشرہ بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ مکاتبت کرنے والے غلام کی رقم کی ادائیگی کے سلسلہ میں اس کی مالی امداد کریں۔ غلاموں کے مالک بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ طے شدہ رقم کا کچھ حصہ چھوڑ دیں اور اسلامی حکومت بھی ہوسکتی ہے کہ وہ ایسے شخص سے زکوٰۃ فنڈ میں سے مالی تعاون کرے۔ [٥٦] غلام اور لونڈیوں کو اہل عرب اپنی آمدنی کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ جتنے کسی کے پاس زیادہ غلام ہوتے اتنا ہی وہ زیادہ مالدار ہوتا جاتا تھا۔ اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے آج کل ایک کارخانہ میں دس مزدور کام کرتے ہیں اور دوسرے میں پچاس۔ تو پچاس مزدوروں والے کارخانہ کا مالک یقیناً پہلے سے بہت زیادہ مالدار ہوجائے گا۔ اس سلسلہ میں بعض بدباطن اپنی آمدنی بڑھانے کے لئے اپنی لونڈیوں سے پیشہ بھی کرواتے تھے۔ اور عبداللہ بن ابی منافق رئیس المنافقین اس سلسلہ میں بہت مشہور تھا۔ اس کی بعض لونڈیاں مسلمان ہوگئیں تو انہوں نے پیشہ کرنے سے انکار کردیا جس پر وہ ملعون انھیں زدوکوب کرتا تھا۔ یہ آیت اسی بارے میں نازل ہوئی۔ (مسلم۔ کتاب التفسیر عن جابر) زنا بذات خود ایک حرام اور مذموم فعل ہے۔ ان دو جملوں نے زنا کی قباحت میں مزید اضافہ کرکے ایسی حرکت کو شدید ترین جرم بنادیا ہے۔ یعنی اگر لونڈیاں پاک دامن نہ رہنا چاہیں تو بھی زنا حرام اور مذموم ہے اور اگر وہ پاک دامن بھی رہنا چاہتی ہوں پھرجبرا ان سے یہ کام کروایا جائے تو یہ شدید جرم بن جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی فرد کسی لالچ کے بغیر زنا کرتا ہے یا کرواتا ہے تو بھی اس کی حرمت اور مذمت بدستور قائم ہے۔ پھر یہ کام جب محض دنیا کے حقیر فائدے کے خاطر کرایا جائے تو اس جرم کی شدت اورشناعت مزید بڑھ جاتی ہے۔ [٥٧] یعنی جس کو بدکاری پر مجبور کردیا گیا ہو۔ اللہ اسے اس کا یہ گناہ معاف فرمائے گا۔ جبکہ اس کا یہ گناہ جبر کرانے والے کے گناہ میں شامل کردیا جائے گا۔ اور ترمذی کے حوالہ سے یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے کہ جس عورت سے بالجبر زنا کیا گیا تھا اس سے حد زنا ساقط کردی گئی تھی۔