فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فِيهَا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتَّىٰ يُؤْذَنَ لَكُمْ ۖ وَإِن قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا ۖ هُوَ أَزْكَىٰ لَكُمْ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ
پھر اگر تم ان میں کسی کو نہ پاؤ تو ان میں داخل نہ ہو، یہاں تک کہ تمھیں اجازت دی جائے اور اگر تم سے کہا جائے واپس چلے جاؤ تو واپس ہوجاؤ، یہ تمھارے لیے زیادہ پاکیزہ ہے اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو، اسے خوب جاننے والا ہے۔
[٣٥] یعنی جب گھر والوں میں سے کوئی شخص بھی گھر میں موجود نہ ہو اس وقت ہرگز کسی دوسرے کے گھر میں داخل نہ ہونا چاہئے۔ کیونکہ اس طرح ایک دوسرے کے متعلق کئی طرح کے شکوک و شبہات پیدا ہوسکتے ہیں اور وہ الزام تراشی سے بڑھ کر معاملہ تنازعہ کی شکل اختیار کرسکتا ہے اس سے استثناء کی صورت صرف یہ ہے کہ صاحب خانہ خود ہی کسی ملاقاتی کو اپنے کمرہ وغیرہ میں یہ کہہ کر بٹھا جائے کہ تھوڑی دیر انتظار کرو۔ میں ابھی واپس آتا ہوں۔ اور اس طرح کی اجازت کی بھی کئی صورتیں ممکن ہیں۔ [٣٦] ایسی اجازت لینے کی حد تین بار ہے۔ ممکن ہے پہلی بار اور دوسری بار اجازت کی بات کو صاحب خانہ سن ہی نہ پائے۔ یا وہ اپنے کسی کام میں سخت مشغول ہو اور اتنی جلدی دروازہ تک آ ہی نہ سکتا ہو۔ لہٰذ تین بار اجازت کا حکم دیا گیا ہے۔ اور یہ اجازت تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد طلب کرنا چاہئے اور اگر تین بار اجازت طلب کرنے پر بھی اندر سے کوئی جواب نہ ملے تو ملاقات یا داخلہ کے لئے مزید اصرار نہ کرنا چاہئے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : اگرتیسری بار بھی اذن نہ ملے توواپس چلے جانا چاہیے :۔ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں انصار کی ایک مجلس میں بیٹھا تھا کہ ابو موسیٰ اشعری آئے۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ دوڑے ہوئے اور گھبرائے ہوئے ہیں۔ وہ کہنے لگے : ”میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاں گیا تھا میں نے تین بار اذن مانگا مگر مجھے اذن نہیں ملا آخر میں لوٹ گیا۔“ پھر مجھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا : ” تم کھڑے کیوں نہ رہے؟“ (انتظار کیوں نہ کیا ؟) ابو موسیٰ اشعری کہنے لگے : ” میں نے تین بار اذن مانگا اور مجھے اذن نہ ملا تو میں لوٹ آیا۔ “ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص تین بار اذن مانگنے پر اسے اذن نہ دیا جائے۔ تو لوٹ آئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ : اللہ کی قسم! تجھے اس حدیث پر کوئی گواہ لانا ہوگا” اب بتلاؤ کیا تم سے کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہے“حضرت ابی بن کعب کہنے لگے :” اللہ کی قسم! تمہارے ساتھ وہ آدمی شہادت دے گا جو ہم سب میں جھوٹا ہو“ اور ان سب میں جھوٹا میں ہی تھا۔ چنانچہ میں ابو موسیٰ اشعری کے ساتھ گیا اور حضرت عمررضی اللہ عنہ کو بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واقعی ایسا فرمایا ہے۔ امام بخاری کہتے ہیں کہ اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارادہ محض حدیث کا توثیق تھا۔ یہ نہیں کہ وہ خبر راہ کو درست نہ سمجھتے تھے۔ (بخاری۔ کتاب الا ستیعان۔ باب التسلیم والاستیذان ثلثاً) اور اگر صاحب خانہ دروازہ وغیرہ کھٹکھٹانے پر پوچھے کہ کون ہے؟ تو ایسے واضح الفاظ میں اپنا تعارف کرانا یا نام بتلانا چاہئے جس سے صاحب خانہ کو علم ہوجائے کہ فلاں شخص داخلہ کی اجازت چاہتا ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث میں واضح ہے۔ ١۔ اذن لینے کا طریقہ :۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس قرضہ کے سلسلسہ میں بات کرنے کے لئے حاضر ہوا جو میرے والد پر تھا۔ میں نے دروازے کھٹکھٹایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اندر سے) پوچھا کون ہے؟میں نے کہا ” میں ہوں“ آپ نے فرمایا : ” میں تو میں بھی ہوں“ گویا آپ نے (نام بتانے کے بجائے) میں ہوں کہنے کو برا سمجھا۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً) ٢۔ اور اجازت حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بیرونی دروازہ کے بالکل سامنے نہ کھڑا ہو۔ جبکہ دائیں یا بائیں جانب کھڑا ہو تاکہ جب صاحب خانہ یا اس کا ملازم یا کوئی اور گھر کا فرد دروازہ کھولے تو اجازت ملنے سے پہلے ہی ملاقاتی کی نظر اندر تک نہ چلی جائے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں آپ نے فرمایا کہ : ”جب نگاہ اندر چلی گئی تو پھر اذن کا مقصد ہی فوت ہوگیا۔“ (ابوداؤد۔ کتاب الادب۔ باب فی الاستیذان) ٣۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ” نظر بازی کی وجہ سے ہی تو اذن کا حکم دیا گیا ہے۔“ (مسلم۔ کتاب الآداب ۔ باب تحریم النظر فی بیت غیرہ) ٤۔ اور نظر بازی یا کسی کے گھر میں جھانکنا بہت بڑا گناہ ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” اگر کوئی شخص تمہارے مکان میں جھانکے اور تم کنکر مار کر اس کی آنکھ پھوڑ دو تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔“ (بخاری۔ کتاب الایات باب من اطلع فی بیت قوم فتؤاعینه) یعنی اگر کوئی شخص ایسے بدنظر شخص کی آنکھ پھوڑ بھی دے تو اس کا قصاص وغیرہ کچھ نہ ہوگا۔