وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِن كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ
اور پانچویں یہ کہ بے شک اس (عورت) پر اللہ کا غضب ہو، اگر وہ (مرد) سچوں سے ہو۔
[١٠] آیت نمبر ٦ سے آیت نمبر ٩ تک کی وضاحت کے لئے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ لعان کےمتعلق احادیث:۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہلال بن امیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اپنی بیوی (خولہ بنت عاصم) کو شریک بن سحماء سے متہم کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلال سے فرمایا : ’’(چار) گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پشت پر حد قذف پڑے گی“ ہلال رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : ”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر ہم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو کسی سے بدکاری کرتے دیکھے تو کیا وہ گواہ ڈھونڈتا پھرے؟“ (یہ تو بہت مشکل ہے) لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہی فرماتے رہے کہ گواہ لاؤ ورنہ حد پڑے گی۔ ہلال رضی اللہ عنہ کہنے لگے : ”اس پروردگار کی قسم جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ بھیجا ہے، میں سچا ہوں اور اللہ تعالیٰ ضرور میرے متعلق کوئی ایسا حکم نازل کریں گے جس سے میری پشت کو سزا سے بچا لیں گے“ اس کے بعد جبریل اترے اور﴿وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ۔۔۔۔۔﴾ سےلے کر﴿مِنَ الصّٰدِقِیْنَ ﴾ تک آیت نازل ہوئیں۔ بعد ازاں آپ نے ہلال کی بیوی کو بلا بھیجا۔ (پہلے) ہلال نے لعان کی گواہیاں دیں۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ ساتھ فرما رہے تھے : ”دیکھو تم میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے اور جو جھوٹا ہے وہ توبہ کرتا ہے یا نہیں؟“ ہلال کے بعد اس کی بیوی کھڑی ہوئی اس نے چار گواہیاں دے دیں جب پانچویں کا وقت آیا تو لوگوں نے اسے ٹھہرایا (اور سمجھایا) کہ یہ پانچویں گواہی تمہیں عذاب میں مبتلا کر دے گی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ یہ بات سن کر وہ عورت ذرا جھجکی اور رکی اور ہم سمجھے کہ وہ اقرار کرلے گی مگر وہ کہنے لگی کہ میں اپنی قوم کو تمام عمر کے لئے رسوا نہیں کرسکتی، پھر پانچویں گواہی بھی دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” دیکھتے رہو، اگر اس عورت کا بچہ کالی آنکھوں، موٹے سیرین اور موٹی پنڈلیوں والا پیدا ہوا تو وہ شریک بن سحماء کا نطفہ ہوگا۔‘‘ چنانچہ اس عورت کے ہاں اسی صورت کا بچہ پیدا ہوا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر اللہ کا حکم (لعان) نازل نہ ہوا ہوتا تو میں اس عورت کو ٹھیک سزا دیتا (بخاری۔ کتاب التفسیر) سہل بن سعد راوی ہیں کہ عویمر (بن حارث بن زید بن جد بن عجلان) عاصم بن عدی کے پاس آئے جو عویمر کے قبیلہ بنی عجلان کے سردار تھے۔ اور ان سے پوچھا کہ : اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو کسی غیر مرد کے ساتھ دیکھے تو تم اس بارے میں کیا کہتے ہو؟ اگر وہ اسے مار ڈالے تو تم لوگ بھی اس کو (قصاص میں) مار ڈالو گے۔ پھر وہ کیا کرے؟ عاصم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کے پاس آئے اور یہ مسئلہ پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے سوالات کو برا سمجھا (اور خاموش رہے) پھر جب عویمر نے عاصم سے اپنے مسئلہ کا جواب پوچھا تو کہنے لگے : میں تو ایسا مسئلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی نہ پوچھوں گا۔ آخر عویمر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا : ”اللہ کے رسول! اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو غیر مرد کے ساتھ دیکھے تو کیا کرے اس کو مار ڈالے تو آپ اس کو (قصاص میں) مار ڈالیں گے۔ پھر آخر کیا کرے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے تیرے اور تیری بیوی کے باب میں قرآن (میں حکم) نازل کیا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں میاں بیوی کو لعان کرنے کا حکم دیا جیسا کہ قرآن میں حکم نازل ہوا تھا۔ عویمر نے اپنی بیوی سے لعان کرنے کے بعد کہا۔ ”یارسول اللہ ! اگر اب میں اس عورت کو رکھوں تو میں ظالم ہوں“ چنانچہ عویمر نے بیوی کو طلاق دے دی اور بعد میں ایسے لعان کرنے والوں میں یہی طریقہ جاری ہوگیا۔ لعان کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دیکھتے رہو اس عورت کا جو بچہ پیدا ہو اگر وہ سانولا، کالی آنکھوں، اور بڑے سرین اور موٹی پنڈلیوں والا ہو تو میں سمجھوں گا کہ عویمر نے اپنی بیوی کے متعلق سچ کہا تھا۔ اور اگر بچہ گرگٹ کی طرح سرخ رنگ کا پیدا ہو تو میں سمجھوں گا کہ عویمر نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی۔ پھر جب بچہ پیدا ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتلائی ہوئی علامات کے مطابق عویمر سچا نکلا۔ چنانچہ اس بچہ کا نسب اسی کی مان سے ملایا گیا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) یہ لعان مسجد میں ہوا اور میں وہاں موجود تھا (کتاب الصلوۃ۔ باب القضاء واللعان فی المسجد ) ٣۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب عویمر اور اس کی بیوی میں لعان ہوچکا تو عویمر نے کہا کہ میں نے جو مہر کا روپیہ دیا تھا وہ کدھر جائے گا تو اسے یہ جواب دیا گیا کہ تمہارے لئے کوئی مال نہیں۔ اگر تم اپنے بیان میں سچے ہو تو بھی تم اپنی بیوی سے صحبت کرتے رہے اور اگر جھوٹے ہو تو پھر تو کسی صورت تم اس کے حقدار نہیں۔ (بخاری۔ کتاب الطلاق۔ باب صداق الملاعنة) احادیث سے ماخوذ لعان سےمتعلق احکام:۔ ان احادیث سے اور بعض دوسری احادیث سے مندرجہ ذیل امور معلوم ہوتے ہیں۔ ١۔ اگر کوئی شخص کسی غیر عورت پر تہمت لگائے تو اس کا فیصلہ شہاداتوں کی بنا پر ہوگا۔ اور اگر اپنی ہی بیوی پر الزام لگائے تو اس کا فیصلہ لعان کی صورت میں ہوگا جیسے ان آیات میں مذکور ہے۔ ٢۔ قسم کھانے کے دوران قاضی فریقین کو اللہ سے ڈر کر صحیح بات کہنے کی تلقین کرتا رہے۔ اور اگر فریق اپنے دعویٰ سے رک جائے تو اس پر حد قذف لگے گی اور مرد کے قسمیں کھانے کے بعد عورت رک جائے تو ظاہر ہے کہ اس نے اپنے زنا کے جرم کا اعتراف کرلیا (حدیث نمبر ١) اس صورت میں اسے رجم کیا جائے گا۔ اور آیت نمبر ٨ میں لفظ عذاب سے یہی سزا مراد ہے۔ ٣۔ لعان تفریق زوجین کی سب سے سخت قسم ہے۔ جس کے بعد فریقین میں کبھی دوبارہ نکاح نہیں ہوسکتا۔ ٤۔ لعان کے بعد مرد طلاق دے یا نہ دے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمیشہ کے لئے جدائی از خود واقع ہوجاتی ہے۔ ٥۔ لعان کے بعد مرد عورت سے حق مہر یا دیگر اخراجات کی واپسی کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔ (حدیث نمبر ٣) ٦۔ لعان کے بعد عدت کے دوران عورت کا نان و نفقہ یا سکنیٰ مرد کے ذمہ نہ ہوگا۔ ٧۔ پیدا ہونے والا بچہ ماں کی طرف منسوب ہوگا۔ اسے متہم زانی کی طرف منسوب نہیں کیا جائے گا۔ ٨۔ بچہ ماں کا وارث ہوگا۔ اور ماں بچہ کی۔ اور وضع حمل کے بعد اگر عورت مجرم ثابت ہوجائے تو بھی اسے سنگسار نہیں کیا جائے گا۔