الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ
زانی نکاح نہیں کرتا مگر کسی زانی عورت سے، یا کسی مشرک عورت سے، اور زانی عورت، اس سے نکاح نہیں کرتا مگر کوئی زانی یا مشرک۔ اور یہ کام ایمان والوں پر حرام کردیا گیا ہے۔
[٦] اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ سو کوڑے کی سزا صرف کنوارے مرد اور عورت کے لیے ہے۔ جیسا کہ پہلے اس سورۃ کے حاشیہ نمبر ٣ کے ابتدا میں اس کی وضاحت کی جاچکی ہے اسی آیت کی تشریح میں درج ذیل حدیث بھی ملاحظہ فرمائیے۔ فحاشی میں مشہورمردیاعورت سے نکاح کرناحرام ہے:۔عمرو بن شعیب کے دادا نے کہا کہ مرثد بن ابی مرثد (غنوی) نامی ایک شخص قیدیوں کو مکہ سے مدینہ لے جایا کرتا تھا۔ مکہ میں ایک فاحشہ عورت تھی جس کا نام عناق تھا اور وہ مرثد کی (اسلام لانے سے پہلے) دوست تھی۔ مرثد نے مکہ کے قیدیوں میں سے ایک شخص سے وعدہ کر رکھا تھا کہ وہ اسے (مدینہ) لے جائے گا۔ مرثد کہتے ہیں کہ میں ایک چاندنی رات دیواروں کے سایہ میں چھپتے چھپاتے مکہ آیا۔ عناق آئی اور اس نے میرے سایہ کو دیوار کے ساتھ کی طرف سرکتے دیکھا۔ جب میرے قریب آگئی تو اس نے مجھے پہچان لیا اور پوچھا ” مرثد ہے؟“ میں نے کہا : ” ہاں! مرثد ہوں“ وہ کہنے لگی : ’’خوش آمدید! آؤ اور ہمارے ہاں یہ رات گزارو“ میں نے کہا : ’’عناق! اللہ نے زنا حرام قرار دیا ہے“ وہ بول اٹھی : اے خیمہ والو! یہ شخص ہے جو تمہارے قیدی اٹھا لے جاتا۔ چنانچہ آٹھ آدمی میرے پیچھے لگ گئے میں خندمہ کی راہ پر چلنے لگا اور ایک غار میں جا گھسا۔ وہ آئے اور میرے سر پر کھڑے تھے۔ انہوں نے پیشاب کیا جو میرے سر پر پڑا۔ تاہم اللہ نے انھیں مجھے دیکھنے سے اندھا کردیا۔ پھر وہ چلے گئے اور میں پھر (مکہ میں) اپنے رفیق کے پاس آیا اور اسے اٹھا لیا وہ ایک بھاری بھر کم آدمی تھا۔ میں اسے اٹھا کر ادخر (کے مقام) تک پہنچا۔ پھر میں نے اس کی مشکیں کھول دیں اور پھر اسے اپنی پشت پر لاد لیا وہ مجھے تھکا تھکا دیتا تھا حتیٰ کہ میں مدینہ پہنچ گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر کہا : ”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں عناق سے نکاح کرلوں؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ رہے اور مجھے کوئی جواب نہ دیا۔ حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ ”اس عورت سے نکاح نہ کر“ (ترمذی۔ کتاب التفسیر) ہاں اگر کوئی زانیہ عورت یا زانی مرد اللہ کے حضور توبہ کرکے آئندہ کلیتاً اپنا طرز حیات بدل لے تو پھر ایسے لوگوں سے نکاح کی اجازت ہے۔ اس آیت میں عام مسلمانوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ جو لوگ فحاشی میں مشہور ہوں ان سے رشتہ داری قائم نہ کی جائے۔ نہ انھیں لڑکی کا رشتہ دیا جائے نہ ان سے لیا جائے۔ ﴿حُرِّمَ ذٰلِکَ﴾ کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ فعل زنا مومنوں پر حرام کردیا گیا ہے اور اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ زنا کرنے والا جب زنا کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا۔۔ الحدیث (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب اثم الزناہ) اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ پاکباز اور عفیف مسلمانوں کے لئے بدکاروں سے رشتہ نکاح کرنا حرام قرار دیا گیا ہے۔