سورة المؤمنون - آیت 103

وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ فِي جَهَنَّمَ خَالِدُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور وہ شخص جس کے پلڑے ہلکے ہوگئے تو وہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنی جانوں کا نقصان کیا، جہنم ہی میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٩٩]میزان الاعمال کےنتائج:۔ ان دو آیات میں قیامت کے دن کا ایک دوسرا منظر سامنے لایا گیا ہے۔ جبکہ ہر شخص کے اعمال کا ٹھیک ٹھیک وزن کیا جائے گا اور پلڑا بھاری ہونے سے یہاں مراد نیکیوں والا پلڑا ہے۔ اور اصل چیز جو اس پلڑے کو بھاری اور وزن دار بناسکتی ہے وہ کلمہ توحید اور اس پر استقامت ہے۔ پھر اسی کے مطابق اعمال صالح اس کی تائید مزید کریں گے۔ نیکیوں کا پلڑا جھکنے پر فوراً صاحب عمل کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ دنیا کے امتحان میں پاس ہوگیا ہے اور اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہے گی۔ اور جس کا نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہونے کی وجہ سے اوپر اٹھ گیا اور برائیوں کا پلڑا بھاری ہوا تو ایسے لوگ اس امتحان میں فیل اور ناکام ہوجائیں گے پھر ایک تو اس ناکامی پر انھیں افسوس اور حسرت ہوگی، دوسرے اس کے نتیجہ میں جہنم کا عذاب ان کے لئے پہلے ہی تیار ہوگا اور ان کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہوگی کہ وہ اللہ کی توحید کے اقرار کے ساتھ شرک بھی کرتے رہے ہوں گے اور خسارہ کی صورت یہ ہوگی کہ وہ اچھے عمل بھی کرتے رہے، لعنت بھی کی مگر شرک کی آمیزش کی وجہ سے وہ اعمال ان کے کام بھی نہ آئے۔ الٹا جہنم کے عذاب سے دو چار ہونا پڑگیا۔