وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَلَدَيْنَا كِتَابٌ يَنطِقُ بِالْحَقِّ ۚ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
اور ہم کسی شخص کو تکلیف نہیں دیتے مگر اس کی وسعت کے مطابق اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو حق کے ساتھ بولتی ہے اور وہ ظلم نہیں کیے جائیں گے۔
[٦١] تکلیف کا مفہوم‘شرعی احکام کی حکمت اور ہر شخص کی استعداد کا لحاظ :۔یعنی ہم نے احکام شریعت ایسے نازل نہیں کئے جو انسان کی بساط سے باہر ہوں۔ شرعی احکام میں مصلحت کے جس پہلو کو ملحوظ رکھا گیا ہے وہ یہ ہے کہ شرعی احکام بالعموم مسلمانوں کی اکثریت کے لئے اور نارمل حالات میں قابل عمل ہوتے ہیں۔ جب حالات بدل جائیں جو احکام میں بھی تھوڑی بہت تبدیلی کردی جاتی ہے پھر چونکہ یہ احکام ایک عام انسان کی استعداد یا قوت کار کو ملحوظ رکھ کردیئے جاتے ہیں۔ لہٰذاعام استعداد سے کم استعداد رکھنے والوں مثلاً بیماروں یا معذوروں کے لئے رخصت یا رعایت دی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ نابالغ، مجنون وغیرہ سے شرعی احکام ویسے ہی ساقط کردیئے گئے ہیں۔ پھر معاشرہ میں کچھ ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو ایک عام انسان کی استعداد سے زیادہ استعداد رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے وسیع میدان عمل کو سامنے لاکر اس حکم کی زیادہ سے زیادہ بجاآوری کی ترغیب دی جاتی ہے۔ مثلاً ہر عاقل و بالغ مسلمان کو پانچ وقت نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم ہے اور نماز سے پہلے وضو یا طہارت بھی ضروری ہے تو حالات کے مطابق مراعات تو یہ ہیں کہ جسے وقت پر وضو کے لئے پانی دستیاب نہ ہو وہ تیمم کرسکتا ہے۔ بیمار کو اگر وضو کرنے سے بیماری بڑھنے یا کسی اور تکلیف کا خطرہ ہو تو وہ بھی تیمم کرسکتا ہےسفر، خوف کی حالت میں نماز قصر بھی کرسکتا ہے اور دو نمازیں اکٹھی بھی پڑھ سکتا ہے، نیز سفر کی حالت میں سواری پر بھی نماز ادا کرسکتا ہے۔ نیز اگر قبلہ یا وقت صحیح کی تعیین میں دقت ہو تو اندازہ سے کام لے سکتا ہے۔ بارش یا کسی اور معقول عذر کی وجہ سے مسجد نہیں جاسکتا تو گھر پر نماز ادا کرسکتا ہے۔ اور کم استعداد والوں کی مثال یوں سمجھئے کہ بیمار بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے اگر زیادہ بیمار ہے تو لیٹے لیٹے ہی پڑھ سکتا ہے۔ اتنی بھی ہمت نہ رہی ہو تو اشارہ سے بھی ادا کرسکتا ہے۔ ایسا بیمار یا انتہائی بوڑھا جو مسجد تک جانے کی ہمت نہیں رکھتا۔ مستقل طور پر اپنے گھر میں نماز ادا کرسکتا ہے۔ یہی اس جملہ کا مطلب ہے کہ ’’ہم کسی شخص کو اس کے مقدور سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے‘‘ اتنی مراعات کے باوجود پھر بھی کوئی شخص عمداً نماز ادا نہیں کرتا تو وہ کافر ہوجائے گا اور اگر نماز کی بجا آوری میں کوتاہی کرتا ہے تو گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوگا۔ اور جو لوگ زیادہ استعداد رکھتے ہیں۔ ان کے لئے فرضی نماز کے علاوہ نوافل تجویز کئے گئے ہیں۔ مثلاً ظہر کی نماز کی فرض رکعات صرف چار ہیں۔ ان چار رکعات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تطوعاً جو اضافہ کیا وہ ہمارے لئے سنت ہیں اور وہ چار رکعات فرض نماز سے پہلے ہیں اور دو بعد میں۔ پھر ان فرض اور سنت رکعات پر تطوعاً آخر میں مزید رکعات کا اضافہ ہوا جسے نفل کہتے ہیں اور ان پر مزید نوافل کا اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ پھر کچھ نمازیں ایسی ہیں جو فرض کفایہ ہیں جیسے نماز جمعہ اور نماز جنازہ وغیرہ اور کچھ سنت ہیں جیسے تہجد کی نماز جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تو فرض تھی مگر امت کے لئے سنت موکدہ ہے یا نماز تراویح اور کچھ نمازیں ہی نفلی ہیں مثلاً نماز چاشت، اوابین اور شکرانہ کے نوافل اور کچھ نفل نمازیں حالات سے متعلق ہیں۔ جیسے نماز استسقاء نماز کسوف اور خسوف وغیرہ یہ ہے وہ وسیع میدان جو ترقی درجات کا سبب بنتا ہے۔ پھر ایک نماز ہی کی یہ صورت نہیں۔ صدقات و خیرات بلکہ ہر رکن اسلام اور عمل صالح کی یہی صورت ہے کہ اس میں تطوعات کا وسیع میدان موجود ہے یہی وہ میدان ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَــیْرٰتِ وَہُمْ لَہَا سٰبِقُوْنَ ﴾ اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بھلے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرنا کوئی ایسی بات نہیں جو انسان کی بساط سے باہر ہو۔ کم از کم ہر انسان کو ایسا کرنے کی کوشش ضرور کرنا چاہئے۔ [٦٢] اعمال کے اندراج کا طریق کار:۔ یعنی ہر انسان کے اعمال، افعال، اقوال حتیٰ کہ مال کے خیالات اور دل میں پیدا ہونے والے وساوس اور ارادے بھی ساتھ کے ساتھ ریکارڈ ہو رہے ہیں۔ قرآن کی تصریح کے مطابق یہ قلم بندی کرنے والے دو معزز فرشتے ہوتے ہیں ایک انسان کے دائیں طرف، دوسرا بائیں طرف، پھر ان کی ڈیوٹیاں بھی فجر اور عصر کے وقت بدلتی رہتی ہیں موجودہ دور کی سائنسی ایجادات نے اس حقیقت کو بہت حد تک قریب الفہم بنا دیا ہے کہ یہ باتیں از خود کس طرح ریکارڈ میں آجاتی ہیں۔ گویا ہر شخص کی زندگی کی مکمل ہسٹری شیٹ اللہ کے ہاں موجود رہتی ہیں اور اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نہ تو کوئی چھوٹی سے چھوٹی بات قلم بند ہونے سے رہ جاتی ہے اور نہ ہی اس میں کوئی غلط اندراج ہوسکتا ہے (نیز دیکھئے سورۃ کہف کی آیت نمبر ٤٩) [٦٣] یعنی یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ کسی کو اس کے کام سے کم اجر ملے، نہ یہ کہ اس کے گناہ سے زیادہ سزا ملے۔ یا کسی کا جرم کسی دوسرے کے کھاتے میں چلا جائے۔ غرضیکہ کسی طرح کی زیادتی اور حق تلفی ممکن نہ ہوگی۔